پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
صوبائی وزرا اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس انعام غنی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری میں مدد کرنے والوں کے لیے 25، 25 لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون کو انصاف کی یقین دہانی کرائی ہے۔
عثمان بزدار نے کہا کہ پولیس اور متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ کے متاثرہ خاتون سے متعلق متنازع بیان پر وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں آئی جی کی طرف سے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جا چکا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ جواب موصول ہونے پر ہو گا۔
ریپ کی شکار خاتون سے متعلق سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے مقامی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ خاتون رات ساڑھے 12 بجے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں۔ اُنہیں موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ سے سفر کرنا چاہیے تھا۔ اس طرف سے ہی جانا تھا تو کم از کم گاڑی میں پیٹرول ہی چیک کر لیتیں۔
پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پنجاب پولیس انعام غنی کا کہنا تھا کہ سانحہ موٹر وے سے متعلق ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمن کے مطابق آئی جی پنجاب نے دعوٰی کیا کہ اُنہیں مختلف سائنسی طریقوں سے 95 فی صد یقین ہے کہ دونوں ملزمان یہی ہیں۔
انعام غنی کا کہنا تھا کہ محکمۂ پولیس نادرا سمیت دیگر اہم اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
آئی جی پنجاب نے دونوں ملزمان کی تصویریں دکھاتے ہوئے کہا کہ اِن کی اطلاع پولیس کی ہیلپ لائن 15 پر دی جائے۔ اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ملزم کا نام عابد علی ہے۔جس کا تعلق بہاولنگر کے علاقے فورٹ عباس سے ہے۔ دوسرا ملزم وقار الحسن ہے۔ جو علی ٹاؤن، قلعہ ستار شاہ شیخو پورہ کا رہائشی ہے۔ لاہور اور شیخوپورہ سمیت پنجاب پولیس، سی ٹی ڈی ملزمان کے پیچھے ہے۔ انٹیلی جنس کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ ملزمان جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔
انعام غنی کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان کو پکڑنے کے لیے چھاپے مارے گئے۔ لیکن ملزم عابد علی اپنی بیوی کے ہمراہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن ان کی بیٹی پولیس کو مل گئی ہے۔
آئی جی پولیس کا مزید کہنا تھا کہ ایک اور ملزم وقار الحسن کے گھر بھی چھاپا مارا گیا۔ مگر وہ پہلے ہی فرار ہو چکا تھا۔
تفصیلات بتاتے ہوئے آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ پولیس ملزم کے موبائل نمبر کی مدد سے اس کے ساتھی وقار الحسن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس والوں نے عابد علی کے بارے میں بہت محنت کی۔ اس کے دیگر رشتہ داروں کے بارے میں پتا چلایا۔ ملزمان کے نام چار موبائل سمیں ہیں۔ ایک نمبر عابد علی کے استعمال میں ہے لیکن اس کے نام پر نہیں ہے۔ اس کو ٹریس کیا گیا اور باقی لوگوں کے بارے میں پتا چلا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم عابد علی قلعہ ستار شاہ تھانہ فیکٹری ایریا شیخوپورہ میں رہائش پذیر تھا۔ بدقسمتی سے زیادہ خبریں پھیلنے کی وجہ سے وہ الرٹ ہو گیا۔ پولیس والوں نے سویلین کپڑوں میں ملزم کے گھر کی نگرانی کی۔ اس دوران ملزم عابد علی اور اس کی بیوی گھر سے فرار ہو گئے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ گزشتہ شب 12 بجے کے قریب تصدیق ہوئی کہ ملزم عابد ہی موٹر وے واقعے میں ملوث ہے۔
ان کے بقول پولیس نے ملزم عابد علی کی گرفتاری کے لیے بہاولنگر کے علاقے فورٹ عباس میں بھی چھاپے مارے۔ تاہم ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
واضح رہے کہ گوجرانولہ کی رہائشی خاتون سے مبینہ زیادتی کا واقعہ 8 اور 9 ستمبر کی درمیانی شب لاہور کے گجرپورہ تھانے کی حدود میں پیش آیا تھا۔
خاتون رات تقریباََ ڈیڑھ بجے بچوں کے ہمراہ لاہور سے گوجرانوالہ جانے کے لیے لاہور۔سیالکوٹ موٹروے پر سفر کر رہی تھیں جسے حال ہی میں ٹریفک کے لیے کھولا گیا ہے۔
مبینہ زیادتی کے واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے خاتون کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہو گیا تھا۔ انہوں نے گاڑی روکی اور اپنے ایک عزیز کو مدد کے لیے فون کیا۔ جس پر انہوں نے موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن پر فون کرنے کا مشورہ دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن سے جواب ملا کہ متعلقہ علاقہ اُن کی حدود میں نہیں آتا۔ اسی دوران دو نامعلوم مسلح افراد آئے، جو خاتون اور گاڑی میں موجود ان کے دو بچوں کو قریبی کھیت میں لے گئے۔ جہاں خاتون کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ملزمان ایک لاکھ روپے کے زیورات اور نقدی بھی لوٹ لی۔
ایف آئی آر کے مطابق واقعہ رات تقریباً تین بجے پیش آیا اور اِس کا مقدمہ صبح 10 بجے درج کیا گیا۔