رسائی کے لنکس

بچوں کی نازیبا ویڈیوز کا کاروبار کرنے والے مجرم کی ضمانت منسوخ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نے چائلڈ پورنوگرافی (بچوں کی نازیبا تصاویر یا ویڈیوز) کا کاروبار کرنے والے ملزم کی ضمانت کی اپیل خارج کر دی ہے جس کے بعد مجرم کو اپنی سزا مکمل کرنا ہو گی۔ مجرم سعادت امین نے اپنی سزا کے خلاف عدالتِ عالیہ سے رجوع کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے چائلڈ پورونوگرافی کیس کا زبانی فیصلہ سنانے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فاروق حیدر نے منگل کو کیس کی دوبارہ سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مجرم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجرم سعادت امین ایک بین الاقوامی چائلڈ پورنو گرافی گینگ کا حصہ ہے جسے ٹرائل کورٹ نے حقائق کے عین مطابق اور ثبوتوں کی روشنی میں سزا سنائی تھی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ مجرم سعادت کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کی جائے۔

کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کے وکیل اسسٹنٹ ڈائریکٹر منعم بشیر چوہدری نے بھی مجرم کی اپیل کی مخالفت کرتے ہوئے ضمانت منسوخ کرنے کی استعدعا کی۔

چائلڈ پورونوگرافی کے مجرم قرار پانے والے شخص کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل رانا ندیم احمد نے مؤقف اختیار کیا کہ نارویجن پولیس لائزن آفیسر، رائے لینڈوت کی درخواست پر مجرم کو مقدمے میں بے بنیاد طور پر ملوث کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجرم پر کمسن بچوں کی قابلِ اعتراض تصاویر اور ویڈیوز نارویجن شہری کو بھجوانے کا الزام بے بنیاد ہے۔ مجرم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے ناکافی شواہد کے باوجود درخواست گزار کو سات برس قید کی سزا سنائی ہے۔

قصور میں برسوں زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:20 0:00

سعادت امین کے وکیل کا کہنا تھا کہ مجرم 2017 سے جیل میں قید ہے اور اپنی سات برس قید کی سزا کا بیشتر حصہ، چار برس قید، اپیل کے حتمی فیصلے سے پہلے ہی کاٹ چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ نے مجرم کو حقائق کے برعکس سزا سنائی ہے۔ مجرم پر 'پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ' کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سعادت امین نے کسی بھی بچے کی فحش ویڈیو نہیں بنائی۔

رانا ندیم نے عدالت سے استدعا کی کہ مجرم کو سنائی گئی قید کی سزا غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کی جائے۔

عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد مجرم سعادت امین کی سزا کے خلاف اپیل خارج کر دی۔ عدالتی فیصلے کے بعد مجرم سعادت امین جیل میں سات سال کی سزا پوری کرے گا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فاروق حیدر نے مجرم کی سزا معطل کرتے ہوئے 15 مئی کو اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں کیس کی ری ہیئرنگ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سعادت امین کے وکیل نے کہا تھا کہ ان کا مؤکل سیکشن 20 اور سیکشن 21 میں بری ہو چکا ہے۔ پتا نہیں ایف آئی اے کو اچانک کیا ہو گیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ناروے کی حکومت نے اکتوبر 2016 میں جب پاکستان کی حکومت کو خط لکھا تھا تو اس کے ساتھ ایک فلیش ڈرائیو میں ڈیٹا بھی دیا تھا۔ رانا ندیم احمد کے بقول ایف آئی اے نے اُس فلیش ڈرائیو کو غائب کر دیا ہے۔

'لاپتا بچے تو نہ ملے، مرنے کے ثبوت مل گئے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:47 0:00

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے کیس کے دوران یہ تسلیم کیا کہ ناروے سے آنے والی فلیش ڈرائیو کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اُس خط میں جن بچوں کا ذکر تھا، نہ تو انہیں ڈھونڈا گیا اور نہ ہی انہیں شاملِ تفتیش کیا گیا۔ تو پھر پاکستان میں چائلڈ پورنوگرافی کا کیس کیسے درج ہو گیا؟

دوسری جانب ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل منعم بشیر چوہدری کے مطابق سعادت امین کو ٹرائل کورٹ نے حقائق کے عین مطابق اور ثبوتوں کی روشنی میں سزا سنائی تھی۔

منعم بشیر چوہدری کے مطابق پاکستان کے قوانین کے تحت چائلڈ پورنوگرافی میں زیادہ سے زیادہ سزا سات برس قید متعین کی گئی ہے جو ان کے بقول پاکستانی معاشرے کے لحاظ سے خاصی کم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق سزا 'پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2014' کے سکیشن 22 کے مطابق زیادہ سے زیادہ سات برس قید ہے۔ یہ ایک ایسی سزا ہے جو 'پراہیبٹری کلاز' میں نہیں آتی۔ یعنی کوئی ایسی سزا جو 10 سال قید سے زیادہ ہو تو اس کیس کے ملزم کو ضمانت نہیں ملتی۔

منعم بشیر چوہدری کا کہنا تھا کہ ایسے جرائم میں سزا زیادہ ہونی چاہیے۔ قانون سازوں کو سوچنا چاہیے کہ ایسے جرائم میں سزا سات سال کے بجائے 40 سال تک کی قید ہونی چاہیے۔ ان کے بقول پاکستان میں دنیا کے بہت سے ملکوں کی نسبت اس جرم کی سزا بہت کم ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

قانونی ماہرین کی رائے

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ایک ہفتے میں ایک ہی کیس کے دو مختلف فیصلوں پر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ اس کیس میں عدالت کی جانب سے تحریری فیصلہ نہیں آیا تھا۔ کسی بھی کیس میں تحریری فیصلہ تب آتا ہے جب عدالت اپنے فیصلے پر دستخط کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ماضی میں بہت مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ جب معزز عدالت کسی بھی کیس کا زبانی فیصلہ بتانے کے بعد جب لکھوانے بیٹھتی ہے تو کچھ ایسے حقائق ان کے سامنے آتے ہیں جس پر عدالت سمجھتی ہے کہ اس کیس پر دوبارہ غور کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں عدالت دوبارہ مقدمہ سننے کے بعد اپنا فیصلہ واپس بھی لے سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں عدالتوں پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہوتا۔ عدالت کسی بھی کیس کا فیصلہ لکھوانے کے لیے فائل کھولتی ہے تو روٹین میں کئی دفعہ ایسا ہو جاتا ہے اور ہائی کورٹ کے قوانین میں اِس کی گنجائش موجود ہے۔

اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جج صاحبان خود کیسز کا فیصلہ لکھواتے ہیں اور دستخط کرتے وقت جب اسے پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ مناسب نہیں لگ رہا۔ اِس کو 'ری ہیئرنگ' میں ڈال دیں۔

اعظم نذیر تارڑ کی رائے میں سزا زیادہ ہونے سے جرائم نہیں رکتے۔ جرائم ہمیشہ تبھی رکتے ہیں جب ملزم کو پتا ہو کہ اگر وہ کوئی جرم کرے گا تو اسے سزا ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پورے یورپ میں سزائے موت نہیں ہے، وہاں عمر قید ہے۔ لیکن جرائم کی شرح اس کے باوجود بہت کم ہے۔ ہمارے ہاں سزائے موت بھی ہے، کوڑے بھی ہیں اور دیگر سزائیں بھی، لیکن جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اعظم تارڑ نے کہا کہ ایسا طریقہ ہونا چاہیے کہ جو کوئی بھی جرم کرے، وہ بچ کر نہ جائے۔

پاکستان میں بچوں کا جنسی استحصال
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

چائلڈ پورنو گرافی کا کیس

سعادت امین نامی ملزم کی چائلڈ پورنوگرافی کیس میں گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی تھی جب سوئیڈن کے ایک شہری جیمز لنڈسٹارم کو بچوں کی نازیبا فلمیں رکھنے اور بیچنے کے الزام میں ناروے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سعادت امین نامی ملزم کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے 2017 میں صوبۂ پنجاب کے شہر سرگودھا سے گرفتار کیا تھا۔ سال 2018 میں لاہور کی سائبر کرائم کی عدالت نے انہیں سات برس قید اور 12 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سعادت امین کی گرفتاری ناروے کی پولیس کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنا پر عمل میں لائی گئی تھی۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزم کے قبضے سے ایک ہزار گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک بھی برآمد ہوئی تھی جس میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں کی پورنوگرافک فلمیں اور تصاویر موجود تھیں۔

ایف آئی اے کے مطابق ملزم بچوں کی پورنوگرافک فلمیں ناروے، سوئیڈن اور برطانیہ سمیت دوسرے ممالک میں فروخت کر کے لاکھوں روپے کما چکا تھا۔ سعادت امین پر الزام ہے کہ وہ پاکستان میں 10 سے 12 سال کی عمر کے بچوں کی فحش تصاویر اور ویڈیوز عالمی سطح پر چلنے والے گروہ کو بیچتا تھا۔

XS
SM
MD
LG