رسائی کے لنکس

آمرانہ دور کی طاقتور پتلیاں


فاروق قیصر اور بابر نیازی کی لوک ورثا میوزیم اسلام آباد میں پتلیوں کے ساتھ تصویر۔
فاروق قیصر اور بابر نیازی کی لوک ورثا میوزیم اسلام آباد میں پتلیوں کے ساتھ تصویر۔

پاکستان میں سرکاری میڈیا کی آمد 1964 میں اس وقت ہوئی جب پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی بنیاد رکھی گئی۔ لگ بھگ 12 سال بعد ملک کے اس واحد ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر ایک پروگرام ’کلیاں‘ کا آغاز ہوا۔

کلیاں اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام تھا۔ اسے ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں جیتے جاگتے انسان نہیں بلکہ لکڑی اور کپڑے کی بنی پتلیاں تھیں۔ اور دوسرا یہ کہ ان پتلیوں کی گفتگو مزاحیہ مگر ٹھوس ہوا کرتی تھی۔

دلچسپ ناموں کے ساتھ مختلف روپ دھارے یہ کردار اور ان کے سردار انکل سرگم طنز و مزاح میں لپیٹ کر سرکار اور سماج کے کئی پہلوؤں پر اس طرح چوٹ کرتے تھے کہ اس کا اثر اس پروگرام کی مقبولیت سے دکھائی دینے لگا تھا۔

پروگرام کو شروع ہوئے ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ ملک میں ایک بار پھر آمریت آ گئی۔ اس بار پاکستان میں آمریت نافذ کرنے والے جنرل ضیا الحق تھے۔

لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس اور پھر رومانیہ سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں کچھ منفرد کر دکھانے کا آئیڈیا لیے جب انکل سرگم اور دیگر پتلیوں کے خالق فاروق قیصر نے ٹیلی ویژن پر کلیاں کا آغاز کیا تو ایسا نہیں سوچا تھا کہ ملک کے سیاسی حالات اتنی جلدی اس طرح تبدیل ہوں گے۔ مگر انہوں نے اپنا پروگرام جاری رکھا۔

جنرل ضیا کے آمرانہ دور حکومت میں تنقید اور طنز و مزاح کو کلیاں کے ذریعے کامیابی سے جاری رکھنے والے فاروق قیصر کہتے ہیں کہ انہیں ایک دن اچانک انکشاف ہوا کہ پریذیڈنٹ صاحب کلیاں پر نظر رکھتے ہیں۔

فاروق قیصر کا تفصیلی انٹرویو یہاں دیکھیے:

"مجھے ایک فون آیا کہ فاروق تم نے پچھلے پروگرام میں کیا کہہ دیا؟ پریذیڈنٹ صاحب نے ٹیپ منگوا لی ہے۔ سٹاف میں افراتفری تھی۔ مجھے اسلام آباد سے پنڈی کے پی ٹی وی سٹیشن بلایا گیا۔ جب دوبارہ پروگرام دیکھا تو میں نے کہا کہ اس میں تو ایسا کچھ نہیں ہے جس پر آپ یا پریذیڈنٹ خفا ہوں۔ میں گھر آ گیا۔ فون کا انتظار کیا۔ نہیں آیا تو میں نے ایم ڈی پی ٹی وی کو کال کی۔ جواب ملا، میں تمہیں بتانا بھول گیا تھا کہ پریذیڈنٹ صاحب نے دراصل ٹی وی پر نشر کے وقت اس پروگرام کو نہیں دیکھا تھا اس لیے انہیں ٹیپ منگوانا پڑی

فاروق قیصر کے تخلیق کردہ مسٹر ہیگا، ماسی مصیبتے، گورا صاحب اور رولا جیسے کرداروں نے اپنی انفرادیت کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی، مگر فاروق قیصر کہتے ہیں کہ ان پتلیوں کی اصل طاقت کا اندازہ انہیں اس وقت ہوا جب جنرل ضیا الحق نے کلیاں کے ایک کردار مسٹر ہیگا سے ملنے کی فرمائش کی۔

"اسلام آباد ٹی وی کی اوپننگ تھی۔ افتتاح ضیا الحق صاحب نے کرنا تھا۔ مجھے ایم ڈی نے دفتر بلایا اور کہا کہ ہمارے سامنے سکرپٹ تیار کرو۔ ہم اسے مہر لگا کر اپروو کریں گے تاکہ اگر تم سٹیج پر کچھ غلط بولو تو ہم صدر کو بتا سکیں کہ ہماری غلطی نہیں ہے۔ جس پر میں نے ان سے کہا کہ ایسا نہ کریں پروگرام ہی رہنے دیں مگر ایم ڈی نے بتایا کہ دراصل فرمائش خود ضیا الحق کی تھی اس لیے موڑی نہیں جا سکتی

فاروق قیصر کہتے ہیں اس دور میں جنرل ضیا الحق کے دو آرڈیننس بہت مشہور تھے " ایک تو سب نے شیروانی پہننی ہے دفتر میں، قومی لباس۔ اور ایک وقت کی نماز پڑھنی ہے۔ لہذا جب صدر کے سامنے مسٹر ہیگا آئے تو انہوں نے شیروانی پہن رکھی تھی۔ ان سے پوچھا گیا آپ کو دیر کیوں ہوئی۔ جواب دیا میں نماز پڑھ رہا تھا کیونکہ صدر صاحب نے نماز لازمی کر دی ہے۔ دفتر کے ایڈمن افسر سے میری دوستی ہے۔ حاضری وہ لگا دیتا ہے میری اور جب قیامت کے دن حساب ہو گا تو میں رجسٹر پیش کر دوں گا اور کہوں گا دیکھیں نمازیں تو پوری ہیں میری۔ اور پھر شیروانی کے بٹن کھول دیے تو نیچے تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا

جنرل ضیا الحق کی اسلامائیزیشن پر تنقید کرنا اور پھر اس سے بچ کر نکل جانا فاروق قیصر کے نزدیک کسی بھی انسان کے لیے اور خود ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ لیکن پروگرام کی پتلیوں نے انہیں وہ جرات دے دی جس کی بنا پر انہوں نے ایک آمر کا سامنا اتنی آسانی سے کر لیا اگرچہ انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔

"پروگرام سے پہلے صدر صاحب نے ریہرسل دیکھی اور پھر مجھے اپنے پاس بلا کر پوچھا یہ جو آپ نے نماز اور شیروانی پر باتیں کی ہیں، کیا آپ خود بھی انہیں ٹھیک سمجھتے ہیں۔ میں نے جواب دیا، سر یہ آپ پر منحصر ہے۔ ہمارا کام ہے پیغام پہنچانا آپ اسے دل سے نہ لگائیے گا۔ انہوں نے اشارہ کیا اور دونوں پروگرام کھڑے کھڑے کینسل کروا دیے۔ یہ میری پتلیوں کی طاقت تھی۔ میں خود تو کبھی ان کا سامنا ہی نہ کر پاتا۔ "

چالیس سال سے زیادہ عرصے سے پاکستان میں فنون لطیفہ کی پیشکش اور تدریس سے منسلک رہنے والے 75 سالہ فاروق قیصر آج بھی راولپنڈی میں قائم فاطمہ جناح یونیورسٹی میں بلا معاوضہ پڑھاتے ہیں۔ ایک اخبار میں کارٹون اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ اور پاکستانی حکومت انہیں ان کی خدمات کے عوض پرائڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور پی ٹی وی کے پچیس سال پورے ہونے پر سلور جوبلی ایوارڈز دے چکی ہے، مگر فاروق قیصر کہتے ہیں کہ انہیں ایوارڈ نہیں اکیڈمی چاہیے تھی۔

"پاکستان میں عوام نے مجھ سے بہت محبت کی ہے، لیکن میری صلاحیتوں سے فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ مجھے بھارت بلایا گیا اور مجھ سے لوگوں کو ٹریننگ دلوائی گئی۔ بھارت کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ مگر اپنے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں نے ہمیشہ چاہا کہ ملک میں ایک اکیڈمی ہو۔ ہمارے پاس ایک سے ایک شاعر، سکرپٹ رائیٹر، فلم میکرز موجود ہیں۔ ان سب کے لیے۔ اگر حکومت چاہتی تو ایسی ایک اکیڈمی ضرور بنا سکتی تھی، مگر حکومت نے ایسا کیوں نہیں کیا، میں اس بارے میں اب کچھ نہیں کہنا چاہتا

XS
SM
MD
LG