ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں اتوار کو فورسز کی مبینہ فائرنگ میں پشتون تحفظ موومنٹ کے تین کارکنوں کی ہلاکت کے واقعہ کی فوری آزادنہ تحقیقات کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جس وقت فائرنگ ہوئی اس وقت پی ٹی ایم کے دو رہنما اور رکن پارلیمنٹ شمالی وزیرستان میں افغان بارڈر سے متصل علاقے خڑ کمر میں ایک جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ اس دوران اچانک فائرنگ شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں تین کارکن ہلاک ہو گئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کے لیے ریسرچر رابعہ محمود نے اس سلسلے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اپنے ادارے کے موقف کی وضاحت کی۔
ایک رکن اسمبلی علی وزیر پہلے ہی پاکستانی فوج کی حراست میں ہیں، جب کہ واقعہ سے متعلق متصاد اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے کارکنوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا، جب کہ پی ٹی ایم کارکن فائرنگ کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
جب کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس کے مطابق کمیٹی اراکین نے پاکستان کی افواج سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے محسن داوڑ اور علی وزیر کی ساتھیوں سمیت مسلح افواج پر مبینہ حملے کی مذمت کی ہے۔
فائرنگ کے واقعہ کے فوری بعد علاقے میں فون اور انٹرنٹ سروسز بند کر دی گئیں جس سے افواہوں میں اضافہ ہو گیا۔
دوسری جانب شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ میں منگل کی صبح سے پشتون تحفظ تحریک کے قافلے پر سیکورٹی اہل کاروں کی مبینہ فائرنگ کے خلاف احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
تحریک کے مرکزی رہنما اور شمالی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کا ایک روز قبل ویڈیو انٹرویو کرنے والے نجی ٹی وی کے صحافی گوہر وزیر کو بنوں سے پیر کی شب حراست میں لیا گیا۔
علاوہ ازیں ڈیرہ اسماعیل خان میں پشتون تحفظ تحریک کے 15 کارکنوں کو سیکورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا ہے۔
بنوں پولیس کے ایک اہل کار نے نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر بتایا کہ گوہر وزیر سمیت پشتون تحفظ تحریک کے 22 کارکنوں کو 3 ایم پی او کے تحت ہری پور جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ادھر تین دن کے بعد شمالی وزیرستان میں نافذ کرفیو اور پابندیوں میں منگل کے روز سے نرمی کر دی گئی ہے۔ اب بنوں سے میران شاہ کو ملانے والی اہم سڑک صرف سرکاری گاڑیوں اور عہدیداروں کی آمد و رفت کے لیے کھول دی گئی ہے جب کہ عام لوگوں کو دیگر راستوں سے آنے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
میران شاہ سے آگے دتہ خیل اور شوال تک تمام سڑکیں آمد و رفت کے لیے بند ہیں اور وہاں کرفیو جیسی صورت حال ہے۔ صرف مقامی لوگوں کو سیکورٹی چیک پوسٹوں سے آنے جانے کی اجازت ہے جب کہ غیر مقامی افراد کو شمالی وزیرستان میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔
قبائلی ذرائع کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ اور سینکڑوں کارکنوں نے پیر کی شام میران شاہ پہنچ کر پرانے بس اڈے پر احتجاجی دھرنا شروع کر دیا ہے، جبکہ منگل کی صبح تک دھرنے میں شرکا کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو گیا تھا۔ دھرنے کے شرکا غیر مسلح ہیں، اور محسن داوڑ نے مظاہرین کو پر امن رہنے کی تلقین کی ہے۔
دھرنے کے شرکا ممبر قومی اسمبلی علی وزیر سمیت پی ٹی ایم کے تمام گرفتار کارکنوں کی رہائی، مقدمات کی واپسی اور فائرنگ کے واقعے میں ملوث اہل کاروں کے خلاف مقدمات درج کرنے اور انہیں سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مجموعی طور پر شمالی وزیرستان کے حالات پر امن مگر کشیدگی برقرار ہے جب کہ میران شاہ، میر علی اور دیگر علاقوں میں تجارتی اور معاشی سرگرمیاں جزوی طور پر بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
ادھر سیکورٹی فورسز نے بنوں سے ایک صحافی گوہر وزیر کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا کی صحافتی تنظیموں نے گوہر وزیر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے انہیں جلد از جلد رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔