رسائی کے لنکس

پی ٹی ایم رہنماؤں کی فوجی ترجمان کے بیان پرکڑی تنقید


پشتون تحفظ تحریک کے بانی رہنما منظور پشتین ایک جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
پشتون تحفظ تحریک کے بانی رہنما منظور پشتین ایک جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پی ٹی ایم کے مرکزی رہنماؤں محسن داوڑ، علی وزیر اور دیگر نے اپنے مختلف ٹوئٹس میں فوجی ترجمان کے بیان پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ دھمکیوں سے ان کی تحریک نہیں رکے گی۔

پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں اور حامیوں نے پاکستانی فوج کے ترجمان کے 'پی ٹی ایم' کے خلاف بیان کو دھمکی قرار دیتے ہوئے اس پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

پی ٹی ایم کے مرکزی رہنماؤں محسن داوڑ، علی وزیر اور دیگر نے اپنے مختلف ٹوئٹس میں فوجی ترجمان کے بیان پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ دھمکیوں سے ان کی تحریک نہیں رکے گی۔

پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ 'آئی ایس پی آر' کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے جمعرات کو راولپنڈی میں ایک پریس بریفنگ کے دوران خبردار کیا تھا کہ 'پی ٹی ایم' اس حد سے تجاوز نہ کرے جس کے بعد ریاست کو اپنا اختیار استعمال کرنا پڑے۔

فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت اور فوج 'پی ٹی ایم' کے تین مطالبات پہلے ہی پورے کرچکی ہے اور اب وہ اس طرف نہ جائے کہ جہاں "ریاست کو اپنا زور لگا کر صورتِ حال کو قابو کرنا پڑے۔"

فوجی ترجمان کی اس پریس بریفنگ کے بعد ٹوئٹر پر "ہیش ٹیگ کون سی ریڈ لائنز" جمعے کو ٹرینڈ کرتا رہا جس کے ذریعے نہ صرف پی ٹی ایم رہنماؤں بلکہ پاکستان اور بیرونِ ملک موجود 'پی ٹی ایم' کے حامیوں نے بھی فوجی ترجمان کے بیان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

'پی ٹی ایم' کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں پاکستانی فوج کے ترجمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "سرخ لکیریں ہمیشہ آپ نے عبور کیں، آئین توڑا، منتخب وزیرِ اعظم کا پھانسی چڑھایا، دوسروں کی جنگیں لڑیں، دہشت گردوں سے تعاون کیا، نمائشی فوجی آپریشنز کے دوران عام شہریوں کی املاک اور بازار اجاڑے اور ہمارے لوگوں پر تشدد کیا اور ان کی تذلیل کی۔ اب ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا ہے۔"

سوشل میڈیا پر 'پی ٹی ایم' کے سرگرم حامی اور اس حمایت کی پاداش میں 'عوامی نیشنل پارٹی' سے معطل کیے جانے والے رہنما افراسیاب خٹک نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ریاست ایک سماجی معاہدے کی بنیاد پر بنی ہے اور اس معاہدے کی خلاف ورزی بھی سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف ہے۔

'پی ٹی ایم' کی حمایت پر 'اے این پی' کی جانب سے معطل کی جانے والی پارٹی کی ایک اور رہنما بشریٰ گوہر نے کہا کہ پارلیمان کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی سیاسی بریفنگز پر خاموش تماشائی نہیں بنے رہنا چاہیے اور اس کا نوٹس لینا چاہیے۔

ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ سیاسی معاملات پر بیانات اور پالیسی گائیڈلائن دینا سول حکومت کی ذمہ داری ہے۔

فوجی ترجمان کے 'پی ٹی ایم' سے متعلق بیان کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ اپنے بنیادی حقوق مانگنا حد عبور کرنا نہیں۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ اگر ریاست کے پاس ان مطالبات کا جواب نہیں تو دھمکیاں دینا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ 'پی ٹی ایم' کی سرگرمیوں کو کوریج نہیں دیتے ہیں لیکن تقریباً تمام ٹی وی چینلز نے 'پی ٹی ایم' سے متعلق فوجی ترجمان کے بیان کو جمعرات کو ہیڈلائنز کی زینت بنایا۔ لیکن کسی ایک ٹی وی چینل نے بھی اس بیان پر 'پی ٹی ایم' کے مؤقف کو اپنی نشریات میں اپنی جگہ نہیں دی۔

'پی ٹی ایم' رہنماؤں کا موقف ہے کہ ان کی تحریک پاکستان میں آباد پختونوں کے خلاف ریاستی اداروں کی مبینہ پالیسیوں اور جبر کے خلاف لیکن مکمل طور پر پرامن ہے اور وہ پاکستان کے آئین میں دیے گئے شہری حقوق اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG