رسائی کے لنکس

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پی ٹی آئی کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟


پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ آخر پی ٹی آئی اس بڑے فیصلے پر کب عمل درآمد کرے گی۔

چیئرمین پی ٹی آئی لاہور میں موجود ہیں اور ہر روز پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کر رہے ہیں، ایسے میں پنجاب کے وزیرِ اعلٰی چوہدری پرویز الہٰی پر بھی سب کی نظریں ہیں کہ آیا کہ وہ عمران خان کی ہدایات پر من و عن عمل کریں گے یا اس معاملے میں کوئی اور مؤقف اختیار کریں گے۔

پنجاب کے سینئر وزیر میاں اسلم اقبال نے منگل کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف ہفتے کو لاہور کے لبرٹی چوک میں بڑا اجتماع کرے گی جہاں عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔

میاں اسلم اقبال کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری عمران خان کے حوالے کر چکے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی ایک ہی پیج پر ہیں۔

پیر کو عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنے اِسی عزم کو دہراتے ہوئے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی سے ملاقات میں اُنہیں ہدایت دی کہ وہ اپنے حلقوں میں سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں اور نئے انتخابات کی تیاری کریں۔

خیال رہے کہ ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان پسِِ پردہ مذاکرات بھی ہو رہے ہیں جن میں صدر عارف علوی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لیے اسمبلیوں سے نکلنے کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔


فوائد کیا ہو سکتے ہیں؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کی رائے میں جب پی ٹی آئی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرے گی اور دیگر صوبوں کی اسمبلیوں سے مستعفی ہو گی تو وفاقی حکومت پر عام انتخابات فوری کرانے کا دباؤ بڑھے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے تمام اراکین استعفوں کی منظوری کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہو جائیں۔

اُن کے بقول اس صورت میں اسپیکر کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہے گا اور ضمنی انتخابات کے بجائے ملک میں عام انتخابات کرانے کا دباؤ بڑھے گا۔

چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت بھی فوری انتخابات چاہتی ہے، لیکن حکمراں اتحاد اس معاملے کو طول دے رہا ہے اور ایسی باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروا کر عام انتخابات کے انعقاد کو مزید التوا میں ڈالا جائے۔

پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اسمبلیوں سے نکلنے میں بظاہر پی ٹی آئی کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو جو مینڈیٹ ملا ہے وہ اس سے بھی محروم ہو جائے گی۔

قومی اسمبلی اور صوبوں میں الگ، الگ انتخابات؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی، حکومت فوری عام انتخابات کرا دے گی۔ لیکن پی ڈی ایم اور وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی برقرار رکھتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں میں ضمنی انتخابات کرانے کا عندیہ دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان کے لیے موجودہ سیاسی صورتِ حال زیادہ سیدھی اور آسان نہیں ہے۔ انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ان کے بقول عمران خان کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں جب کہ سوشل میڈیا پر بھی اُن کے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان میں یہ مثال بھی قائم ہو سکتی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ، الگ ہوں جس سے لامحالہ قومی خزانے پر اضافی بوجھ پڑے گا۔

چوہدری پرویز الہٰی کہاں کھڑے ہیں؟

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ گو کہ چوہدری پرویز الہٰی نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ عمران خان کے کہنے پر فوری اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے عمران خان کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پنجاب میں حکومت ہونے کے باعث اُنہیں جو سیکیورٹی حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گی اور وہ زیرِ التوا مقدمات میں گرفتار بھی ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے اندر سے بھی کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ ایسے موقع پر اسمبلیاں تحلیل کی جائیں۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی میں کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کے بجائے قومی اسمبلی میں واپسی کی جائے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی سے باہر ہونے کے باعث حکمراں اتحاد من پسند قانون سازی کرنے کے علاوہ اہم عہدوں پر بغیر کسی رکاوٹ کے تقرریاں کر رہا ہے۔

وفاقی حکومت کی حکمتِ عملی

چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر بہت کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں، لہذٰا ان حالات میں وہ فوری انتخابات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اُن کے بقول سیاسی استحکام فوری انتخابات کے ذریعے ہی آ سکتا ہے۔

سلیم بخاری نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت کو فی الوقت کوئی خطرہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں ہے اور جب وہاں سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا تو کوئی بھی حکومت خود کو بہت مضبوط اور فعال سمجھتی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی پیر کو ہونے والی پریس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ معیشت کے مسائل کے باجود اُس میں اُنہوں نے پی ٹی آئی کو آنکھیں دکھائی ہیں۔

سلیم بخاری کی رائے میں اگر صوبوں کی حد تک انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو عمران خان نشستیں تو ضرور جیتیں گے لیکن ان کے خیال میں وہ دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکیں گے۔

حمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ اگر صوبوں کی حد تک انتخابات ہو جاتے ہیں اور اگر پی ٹی آئی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پاتی تو پی ٹی آئی کو کتنا نقصان ہو گا اِس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔

XS
SM
MD
LG