ایک ایسے وقت میں جب سابق صدر آصف علی زرداری تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پارلیمان میں مشترکہ قرارداد لانے کی بات کر رہے ہیں اور نواز لیگ کے سینیر راہنما سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ حکومت مدت پوری کرتی نظر نہیں آتی۔ بعض تجزیہ کار اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نہ صرف معاشی طور پر مشکلات سے دوچار ہے بلکہ اس کے لیے سیاسی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف کے نقادوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے ابتدائی دو ماہ میں روپے کی قیمت گرنے کے سبب جو مہنگائی بڑھی ہے، اس سے عوام میں حکومت مخالف لہر پیدا ہوئی ہے اور تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی سے ایسی کم از کم دس سیٹیں ہار گئی ہے جو اس نے عام انتخابات میں جیت رکھی تھیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے راہنما اور حامی اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہی حلقوں پر شکست ہوئی جو پہلے سے مخالف پارٹیوں کا گڑھ خیال ہوتے ہیں۔ اور پھر تقریباً تمام مخالف جماعتوں نے اتحاد کیا تھا۔
گیلپ پاکستان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے ووٹوں میں ضمنی انتخابات میں ایک فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ووٹر پارٹی سے دور ہو گئے، بلکہ ٹرن آؤٹ میں کمی کے سبب کم ووٹ ملے۔ اسی طرح گیلپ کے مطابق تحریک انصاف کا کم ہونے والا ووٹ نواز لیگ کو خصوصي طور پر نہیں ملا بلکہ مخالف جماعتوں کے اتحاد میں یہ مجموعی اضافہ ہے۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں گفتگو کرتے ہوئے نواز لیگ کے سینیر راہنما سینیٹر مشاہداللہ نے کہا کہ ہم حکومت کے خلاف اگر کوئی قدم اٹھائیں گے تو سوچ سمجھ کر اٹھائیں گے۔
’’ ہم تحریک انصاف کی طرح کا کام نہیں کریں گے، جو بھی کیا سوچ سمجھ کر کریں گے‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے دو سو غیرملکی ماہرین کی ٹیم پاکستان لانے کا دعویٰ کیا، بیرون ممالک پاکستانیوں سے ڈالروں میں بھاری سرمایہ کاری کی امیدیں دلائیں جو بر نہیں آئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز لیگ ملکی خزانے میں 18 ارب ڈالر چھوڑ گئی مگر حکومت غلط بیانی کرتے ہوئے کہتی ہے کہ خزانہ خالی ملا۔
تحریک انصاف کے راہنما اور رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے کہا کہ ان کی حکومت کو خطرہ نہیں ہے۔ حکومت کو ورثے میں مسائل ملے۔ قومی خزانے پر بوجھ ملا اور ہر چیز، ہر ادارہ تباہ حال ملا۔ اب ان کے بقول اداروں کی بحالی اور اصلاحات پر کام ہو رہا ہے۔ ایسے ہی دباؤ حکومت کو بیرونی قرضوں یا کچھ چیزوں کی قیمت بڑھانے پر مجبور کر رہے ہیں لیکن بہت جلد ملک بہتری کی جانب گامزن نظر آئے گا۔ ان کا کہنا تھا بیرون ممالک سے نہیں مگر ملک کے اندر سے بہترین ذہنوں کو ٹاسک فورسز کا حصہ بنایا گیا ہے۔
سینیٹر مشاہداللہ نے کہا تحریک انصاف پر سے عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے اور یہ پارٹی جو کہا کرتی تھی کہ ضمنی انتخابات حکومتی جماعت ہی جیتا کرتی ہے اپنی جیتی ہوئی دس سیٹیں ہار گئی ہے۔ اس پر ریاض فتیانہ نے کہا کہ پارٹی صرف ان حلقوں میں ہاری ہے جو مخالفین کا گڑھ تھے اور عام انتخابات میں عمران خان کی شخصیت اور ان کے بذات خود میدان میں ہونے کی انفرادیت کے سبب جیتی تھی۔
کیا حکومت مشکل میں ہے؟
کیا اپوزیشن کا گرینڈ الائنس حکومت کے اتحاد سے بھی کچھ مہرے الگ کر سکتا ہے؟ اس بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ریڈ زون میں داخل ہو چکی ہے۔ عددی اعتبار سے اس کی پوزیشن مستحکم نہیں۔ اگر قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ اور سردار اختر مینگل بالترتیب چھ اور چار سیٹوں کے ساتھ الگ ہو جائیں تو حکومت اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکے گی۔ یہی صورت حال پنجاب میں بھی درپیش ہے۔ البتہ انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر کسی بھی حکومت کے خلاف اس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چھ ماہ تک عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس اعتبار سے عمران حکومت کے پاس مزید چار ماہ ہیں۔ اور پھر اس کے بعد پی ٹی آئی کو اپنے اتحادیوں کا اعتماد قائم رکھنا ہو گا۔