رسائی کے لنکس

مجوزہ نجکاری کے خلاف پی آئی اے ملازمین کا احتجاج جاری


حکومت کا موقف ہے کہ وہ کسی احتجاج کی آڑ میں سیاست کرنے یا حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی۔

پاکستان میں قومی فضائی کمپنی "پی آئی اے" کی مجوزہ نجکاری کے خلاف ادارے کے ملازمین کا احتجاج بدھ کو دوسرے روز بھی جاری رہا اور ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر اس کمپنی کی فضائی سروس اور دیگر سرگرمیاں مکمل طور پر بند رہیں۔

مجوزہ نجکاری کے معاملے پر پی آئی اے ملازمین کا احتجاج تو کئی روز سے جاری تھا لیکن یہ صورتحال منگل کو اس وقت سنگین ہوگئی جب کراچی میں احتجاج کرنے والے ملازمین اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی اور اس دوران گولی لگنے سے دو افراد دم توڑ گئے۔

موقع پر موجود پولیس اور رینجرز کا موقف ہے کہ گولی ان کی طرف سے نہیں چلائی گئی تھی۔

منگل کو اندرون ملک پی آئی اے کی درجنوں پروازیں منسوخ کر دی گئی تھیں جب کہ بدھ کی صبح بھی پروازوں کی منسوخی کا سلسلہ جاری رہا۔

شہری ہوابازی کے ادارے "سول ایوی ایشن اتھارٹی" کے ترجمان پرویز جارج نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسافروں کی پریشانی کے پیش نظر نجی فضائی کمپنی سے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے مابین خصوصی پروازیں چلانے کی درخواست کی گئی ہے۔

لیکن مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ نجی فضائی کمپنی نے کرایوں میں "غیرمعمولی حد تک" اضافہ کر دیا ہے۔

بدھ کو ملک کے مختلف شہروں بشمول اسلام آباد میں پی آئی اے کے ملازمین نے احتجاج کیا اور نجکاری کے فیصلے کو واپس لینے تک اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

پی آئی اے کے ایک عہدیدار وحید لنگڑیال کا کہنا تھا کہ حکومت نے اگر نجکاری کا فیصلہ کیا تھا تو اسے احسن طریقے سے عملی جامہ پہنایا جا سکتا تھا لیکن ان کے بقول ادارے کے ملازمین کو اس ضمن میں اعتماد میں نہ لے کر ہزاروں خاندانوں کو بے روزگاری کے خطرے سے دوچار کر دیا گیا ہے۔

"نجکاری کرنی تھی تو لوگوں کو گولڈن شیک ہینڈ دیتے تین، چار ہزار ملازمین ایسے ہیں جن کی نوکری تین، چار سال باقی ہے اگر ان کو اچھی پیشکش کی جاتی تو وہ چلے جاتے اور دوسری بات دنیا بھر میں (اس شعبے سے وابستہ افراد کی نسبت) ہماری تنخواہیں سب سے کم ہیں۔"

احتجاج میں شامل سپروائزر سرور آہیر کہتے ہیں کہ قومی فضائی کمپنی بلاشبہ خسارے میں جا رہی ہے لیکن یہ منافع سے زیادہ ملک کے طول و عرض میں رابطوں کے ذریعے کا قومی فریضہ بھی انجام دے رہی ہے۔

"اس نے پاکستان کو جوڑ رکھا ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ جتنے بھی دور افتادہ علاقے ہیں بلوچستان میں، شمالی علاقے ہیں یہاں تک کہ اسلام آباد، لاہور، اسلام آباد کا روٹ غیر منافع بخش ہے کوئی بھی نجی کمپنی اس پر سروس نہیں دیتی یہ صرف پی آئی اے کر رہی ہے اور اس لیے کر رہی ہے کہ یہ قومی کمپنی ہے۔"

ملازمین کے احتجاج کے دوران حزب مخالف کی جماعتیں بھی اظہار یکجہتی کر رہی ہیں اور یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2011ء میں بھی ایسی ہی ایک احتجاجی مہم میں اس وقت کی حزب مخالف میں شامل موجودہ حکمران جماعت نے بھی مظاہرین کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔

اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے بدھ کو احتجاجی ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے ان کے مطالبات کے حق میں آواز بلند کی۔

"میں آپ سے وعدہ کرنے آیا ہوں کہ جو تمہاری آواز ہے وہ ہماری آواز ہوگی۔۔۔جو تمہارا موقف ہے وہ ہمارا موقف ہوگا کیونکہ یہ ایک قومی اثاثہ ہے۔"

لیکن حکومت کا موقف ہے کہ وہ کسی احتجاج کی آڑ میں سیاست کرنے یا حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے صحافیوں سے گفتگو میں ایک بار پھر اس سارے معاملے کو حزب مخالف کی مبینہ سازش قرار دیا۔

"ابھی چھ مہینے پڑے تھے، چھ مہینے پہلے ہڑتال کرنے کا کیا جواز تھا، وزیراعظم نے چھ مہینے دیے تھے اور پھر یہ فیصلہ ہونا تھا ۔ تو چھ مہینے پہلے ہی کیوں شروع کر دیا گیا اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے اس میں سازش کی بو آتی ہے۔"

پی آئی اے کی فضائی سروس میں تعطل کے باعث جہاں مسافروں کو سفر میں دشواری کا سامنا ہے وہیں اس کمپنی کے ذریعے سامان کی ترسیل میں خلل آنے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بھی مثاتر ہو رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG