رسائی کے لنکس

لاپتا افراد کے وکیل انعام الرحیم کو رہائی کی مشروط پیش کش


اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ملزم انعام الرحیم کو رہائی کے لیے پاسپورٹ جمع کرانا ہوگا۔ (فائل فوٹو)
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ملزم انعام الرحیم کو رہائی کے لیے پاسپورٹ جمع کرانا ہوگا۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی وزارتِ دفاع نے لاپتا افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو مشروط طور پر رہا کرنے کی پیش کش کر دی ہے۔ یہ پیش کش سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت کے دوران کی گئی۔

ملزم کو رہائی کے لیے پاسپورٹ جمع کرانے اور لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ دینے کا کہا گیا ہے۔ تاہم ملزم کے وکیل طارق اسد نے اس شرط پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انعام الرحیم کا لیپ ٹاپ تو اُن کے گھر پر ہی موجود ہے تو پھر پاس ورڈ کس لیے چاہیے؟

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا تھا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم نے آئی ایس آئی اور جوہری پروگرام سمیت حساس معلومات لیک کی ہیں۔ وہ اکیلے نہیں بلکہ پورا نیٹ ورک ہے جس کے کئی لوگ گرفتار ہو چکے ہیں، جب کہ ایک کو پھانسی بھی ہوئی ہے۔

کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کے صاحب زادے نے بھی ان کا لیپ ٹاپ گھر میں ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل نے عدالت سے غلط بیانی کی ہے اور تمام کہانی من گھڑت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ "اگر سب کچھ ریکور کر لیا گیا تھا تو اب پاس ورڈ کس چیز کے لیے مانگ رہے ہیں؟"

طارق اسد ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ کرنل (ر) انعام کو جب اغوا کیا گیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف ایک فائل ساتھ لے کر گئے تھے۔ طارق اسد کا کہنا ہے کرنل (ر) انعام پر جاسوسی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کی رہائی کے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر بدھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ جاسوسی کے الزام میں گرفتار ملزم بیمار ہے اور اسے بار بار اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ تاہم وزارتِ دفاع ملزم کو رہا کرنے پر رضا مند ہے، لیکن کچھ شرائط ہیں۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے راولپنڈی اور اسلام آباد سے باہر جانے پر پابندی ہو گی۔ ملزم کو تحقیقات میں تعاون اور لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ دینا ہوگا۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ ان کے مؤکل گزشتہ ایک ماہ اور آٹھ دن سے حراست میں ہیں۔ رہائی کے لیے پاسپورٹ جمع کرانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے تحقیقات میں تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔

دلائل سننے کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ انعام الرحیم کے وکیل نے پاسپورٹ جمع کرانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ رہائی کے خلاف حکومتی اپیل کو میرٹ پر سنا جائے گا۔

عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت پر الزام عائد کیا تھا کہ کرنل (ر) انعام عملی طور پر جاسوسی کرتے ہیں وہ اکیلے نہیں بلکہ ان کا پورا نیٹ ورک ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اس ملک دشمن جاسوس نیٹ ورک کے ایک ساتھی کو سزائے موت دی جا چکی ہے جبکہ دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کا مبینہ اغوا

فوج کے سابق کرنل انعام الرحیم کو 16 دسمبر کو راولپنڈی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے لے جایا گیا تھا۔

وکیل کے مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں موجود ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔

ایف آئی آرمیں کہا گیا کہ جس وقت انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور انہیں جبراً اغوا کرلیا جب کہ اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیں۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کے صاحبزادے حسنین انعام نے وائس اف امریکہ کو بتایا تھا کہ 16 دسمبر کی شب ساڑھے 12 بجے عسکری 14 میں واقع ان کے گھر میں سیاہ لباس میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح افراد گھس آئے۔ یہ افراد والد کو اسلحے کے زور پر زبردستی اپنے ہمراہ گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔

حسنین کے بقول ملزمان نے انہیں دھمکی بھی دی کہ اگر والد کی گمشدگی کورپورٹ کیا تواس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کون ہیں؟

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم لاپتا افراد اور فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے افراد کی وکالت کے لیے مشہور ہیں۔

انہوں نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان نیوی کے جہازوں پر حملہ آور ملزمان کی بھی وکالت کی تھی۔

کرنل (ر) انعام الرحیم ماضی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر پر حملے کے ملزمان کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔

انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان کے خلاف کچھ ریفرنس بھی دائر کیے ہوئے ہیں جن میں جسٹس منصورعلی شاہ بھی شامل ہیں۔

حالیہ عرصے میں انہوں نے سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی تعیناتی پر بھی پٹیشن داخل کی تھی جب کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں انہوں نے آرمی ایکٹ کی کاپی بھی عدالت کو پیش کی تھی۔

XS
SM
MD
LG