رسائی کے لنکس

کرنل (ر) انعام الرحیم پر جاسوسی اور حساس معلومات لیک کرنے کا الزام


پاکستان کی سپریم کورٹ نے لاپتا افراد کے کیسز کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کا لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کا حکم معطل کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ کی مشترکہ طور پر دائر اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کرنل (ر) انعام الرحیم کی گرفتاری پر ابتدائی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انعام الرحیم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار پائے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم نے آئی ایس آئی اور جوہری پروگرام سمیت حساس معلومات لیک کیں۔ وہ اکیلے نہیں بلکہ پورا نیٹ ورک ہے جس کے کئی لوگ گرفتار ہو چکے ہیں، جب کہ ایک کو پھانسی بھی ہوئی ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا "کیا آپ نے زیرِ حراست شخص کو بتایا ہے کہ ان پر کون کون سے الزامات ہیں‘‘، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اُنہیں بتا دیا گیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کرنل (ر) انعام عملی طور پر جاسوسی کرتے رہے۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی سزا موت یا 14 سال قید ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کو تحقیقات کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؛ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم اکیلے نہیں ان کے ساتھ اور بھی لوگ ہیں۔
کچھ لوگوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور کچھ کو حراست میں لینا باقی ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد کرنل (ر) انعام الرحیم کی ضمانت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے فیصلے کو معطل کر دیا اور کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی۔

عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں کرنل (ر) انعام کے خلاف مواد موجود ہے۔ تحقیقات مکمل ہوتے ہی ملزم کو قانونی معاونت فراہم کی جائے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔

عدالت نے کرنل (ر) انعام الرحیم کے وکیل طارق اسد سے تحریری جواب مانگ لیا جب کہ وکیل نے دلائل کے لیے مہلت مانگ لی ہے۔

'کرنل (ر) انعام الرحیم کا مبینہ اغوا'

فوج کے سابق کرنل انعام الرحیم کو 16 دسمبر کو راولپنڈی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے لے جایا گیا تھا۔

وکیل کے مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق، انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں موجود ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا، جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ جس وقت انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور انہیں جبراً اغوا کرتے ہوئے اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیں۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کے صاحبزادے حسنین انعام نے وائس اف امریکہ کو بتایا تھا کہ 16 دسمبر کی شب ساڑھے 12 بجے عسکری 14 میں واقع ان کے گھر میں سیاہ لباس میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح افراد گھس آئے۔ یہ افراد والد کو اسلحے کے زور پر زبردستی اپنے ہمراہ گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔

حسنین کے بقول، ملزمان نے انہیں دھمکی بھی دی کہ اگر والد کی گمشدگی کو رپورٹ کیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

کرنل (ر) انعام الرحیم کون ہیں؟

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم لاپتا افراد اور فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے افراد کی وکالت کے لیے مشہور ہیں۔

انہوں نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان نیوی کے جہازوں پر حملہ آور ملزمان کی بھی وکالت کی تھی۔

کرنل (ر) انعام الرحیم ماضی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر پر حملے کے ملزمان کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔

انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان کے خلاف کچھ ریفرنس بھی دائر کیے ہوئے ہیں جن میں جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG