رسائی کے لنکس

بھارتی ہائی کمیشن کے باہر خالصتان تحریک کے حامیوں کی ہنگامہ آرائی، برطانیہ کی مذمت


برطانیہ نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر خالصتان تحریک کےحامیوں کے احتجاج کے بعد کہا ہے کہ برطانیہ اور بھارت کے رشتے فروغ پذیر ہیں اور ہائی کمیشن کے باہر تشدد ناقابلِ قبول ہے۔

برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ جیمز کلیورلی نے ایک بیان میں کہا کہ برطانیہ اور بھارت کے باہمی رشتے گہرے روابط کی بنیاد پر قائم ہیں اور وہ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ برطانوی حکومت ، بھارتی ہائی کمیشن کی سیکیورٹی کو یقینی بنائے گی۔ برطانیہ میں تمام ممالک کی سیکیورٹی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی ریاست پنجاب میں خالصتان حامی مبینہ انتہاپسند اور ’وارث پنجاب دے‘ نامی تنظیم کے سربراہ امرت پال سنگھ کی تلاش میں پولیس کارروائی کے خلاف خالصتان تحریک کے حامیوں نے اتوار کو لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر بھارت مخالف اور خالصتان کی حمایت میں نعرے لگائے۔

اس دوران بھارت کا قومی پرچم اتار کر خالصتان کا پرچم لہرا دیا گیا۔ ہائی کمیشن کے عملے نے خالصتانی پرچم اتار کر دوبارہ بھارتی پرچم نصب کر دیا تھا۔

خالصتان حامیوں نے بدھ کو بھی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا۔ مظاہرین نے عمارت کے داخلی دروازے پر پانی کی بوتلیں اور دھواں چھوڑنے والی اشیا پھینکیں۔ یہ مظاہرہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ مقامی پولیس نے ہائی کمیشن کے باہر رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ اس درمیان ہائی کمیشن کی عمارت پر ایک کافی بڑا بھارتی پرچم لہراتا رہا۔

جیمز کلیورلی نے مزید کہا کہ پولیس اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے اور برطانوی حکومت لندن میں بھارتی ہائی کمیشن اور نئی دہلی میں بھارتی حکومت سے رابطے میں ہے۔

بھارت نے ہائی کمیشن کے باہر ہونے والے احتجاج پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے نئی دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن اور برطانوی ہائی کمشنر کی رہائش گاہ کے باہر سیکیورٹی رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔ تاہم اس بارے میں حکومت کی جانب سے کوئی بیان نہیں دیا گیا۔

قبل ازیں نئی دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن میں سینئر ترین سفارت کار کو اتوار کی شب میں وزارتِ خارجہ میں طلب کرکے اس واقعے پر سخت ردِعمل ظاہر کیا گیا اور ہائی کمیشن کے باہر سیکیورٹی کے مکمل فقدان اور خالصتان حامیوں کے ہائی کمیشن کے احاطے میں داخل ہونے پر وضاحت طلب کی گئی۔

اس بارے میں برطانوی سفارت کار کو ویانا کنونشن کے تحت برطانیہ کو اس کی ذمے داریوں کی یاد دلائی گئی۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ بھارت کو برطانیہ میں بھارتی سفارت خانے اور عملے کی سیکیورٹی کے بارے میں وہاں کی حکومت کی ’بے حسی‘ ناقابلِ قبول ہے۔


بھارت میں برطانوی ہائی کمشنر الیکس ایلس نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر ’شرمناک حرکتوں‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر ناقابلِ قبول قرار دیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے وقت جب کہ بھارت جی۔20 کی صدارت کر رہا ہے اور برطانیہ اس گروپ کا ایک مضبوط رکن ہے اور ستمبر میں نئی دہلی میں جی۔20 کا سربراہ اجلاس منعقد ہونے والا ہے، دونوں ملکوں کے رشتوں میں آئی تلخی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کے مطابق موجودہ صورتِ حال افسوس ناک ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت کی جانب سے برطانوی ہائی کمیشن اور ہائی کمشنر کی رہائش گاہ کی سیکیورٹی کم کرنے کے قدم کو نامناسب قرار دیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ پاکستان نہیں ہے کہ آپ جو چاہیں قدم اٹھائیں۔ اس کے ساتھ جیسے کو تیسا والا رویہ ناعاقبت اندیشانہ ہے۔ ہاں اندرون ملک کچھ طبقات اس سے خوش ہو جائیں گے لیکن سفارت کاری میں ایسے اقدامات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

ان کے مطابق ایسے میں جب کہ بھارتی نژاد رشی سونک برطانیہ کے وزیرِ اعظم ہیں، دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی بھی قسم کی اونچ نیچ اور وہ بھی ایک علیحدگی پسند تنظیم کی وجہ سے، فکرمندی کا باعث ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بہت گہرے تعلقات ہیں۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے فروری کے اوائل میں لندن کا دورہ کیا تھا اور اپنے برطانوی ہم منصب سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کیا تھا۔ انہو ں نے بات چیت کے دوران سیکیورٹی اور علیحدگی پسندی سے متعلق بھارت کی تشویش سے بھی ان کو آگاہ کیا تھا۔

پشپ رنجن کے بقول اجیت ڈوول نے برطانوی حکام سے یہ بھی کہا تھا کہ خالصتان حامیوں پر نہ صرف نظر رکھی جائے بلکہ ان کی فہرست بھی بھارت کو فراہم کی جائے۔ اس کے باوجود اس قسم کے واقعات کا ہونا ناقابلِ فہم ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق برطانیہ میں بھارت مخالف کئی تنظیمیں سرگرم ہیں اور ان کو بڑی حد تک کارروائیوں کی اجازت ہے۔


رپورٹس کے مطابق اتوار کے روز جہاں احتجاج کرنے والوں کی تعداد بمشکل 100 تھیں وہیں بدھ کو احتجاج میں کم از کم دو ہزار افراد شریک ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ہائی کمیشن کی عمارت پر پانی کی بوتلیں پھینکیں بلکہ وہاں تعینات پولیس اہلکاروں پر رنگین پاؤڈر بھی پھینکے۔

پشپ رنجن کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود پولیس نے کوئی خاص کارروائی نہیں کی۔

ایک نیوز ویب سائٹ ’فرسٹ پوسٹ‘ کے سینئر ایڈیٹر اور تجزیہ کار سری موئے تعلقدار کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر مظاہرے کے حوالے سے جو تصاویر ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔

اُنہوں نے اپنے تجزیاتی مضمون میں لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر سیکیورٹی کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے بعض سابقہ واقعات کا ذکر کیا اور لکھا ہے کہ خالصتان حامیوں نے 2012 میں لندن میں ایک سابق بھارتی چیف آف اسٹاف لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) کلدیپ سنگھ برار پر حملہ کرکے انہیں بری طرح زخمی کر دیا تھا۔

اُنہوں نے اس سے قبل ایک بھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کے اغوا اور وحشیانہ قتل کا بھی ذکر کیا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ بھارتی ہائی کمیشن اور وہاں کے عملے کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ذمے داری میزبان ملک برطانیہ کی ہے۔ وہ اپنے فرائض سے غافل ہونے کا قصوروار ہے اور اتوار کو پیش آنے والے واقعے کی ذمے داری سے نہیں بچ سکتا۔

ان کے خیال میں برطانیہ کی جانب سے سخت کارروائی اور حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے سلسلے میں بھارت کی توقع بجا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ بھارت کو بھی اپنے طور پر اقدام اٹھانا ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز کی بنیاد پر خالصتان حامیوں کی شناخت کرے اور بھارت میں ان کی املاک کو ضبط کرنے کے ساتھ ان کے ’اوورسیز سٹیزن شپ آف انڈیا‘ (او سی آئی) کارڈز کی جانچ بھی کرے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG