رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: ایک اور صحافی کی گرفتاری پر صحافتی اور انسانی حقوق تنظیموں کا شدید ردِ عمل 


عرفان معراج ۔ فری لانسر صحافی
عرفان معراج ۔ فری لانسر صحافی

ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق اور صحافتی تنظیموں نے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے فری لانس صحافی عرفان معراج کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور ان کی فوری اور غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

عرفان معراج کو پیر کے روز بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیش ایجنسی(این آئی اے) کی ایک ٹیم نے سرینگر سے گرفتار کرکے انہیں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی منتقل کر دیا تھا۔

عرفان معراج کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں این آئی اے کے مقامی دفتر سے وہاں حاضر ہونے کے لیے ایک فون کال آئی تھی اور جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں گرفتار کرکے فوری طور پر نئی دہلی منتقل کردیا گیا۔

این آئی اے ذرائع نے بتایا کہ ایجنسی نے اس سے پہلے دہشت گردی کی مالی معاونت کے ایک کیس میں تحقیقات کے دوران عرفان معراج سے پوچھ گچھ کی تھی اور اس میں ان کے ملوث ہونے کی تصدیق کے بعد ہی انہیں غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد کے سخت قانون 'ان لا فل ایکٹویٹیز پریونشن ایکٹ 1967 یا یو اے پی اے' کے تحت گرفتارکیا گیا۔

گرفتاری کی وجہ مضحکہ خیز ہے: ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایمنسٹی انٹرنیشنل نےعرفان معراج کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے این آئی اے کی پیش کردہ وجہ کو مضحکہ خیز اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔

انسانی حقوق کی اس تنظیم نے عرفان معراج کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت میں میڈیا کی آزادیوں اور سول سوسائٹی پر عائد قدغنوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کی انتظامیہ کے سربراہ آکار پٹیل نے ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ گرفتاری جموں و کشمیر خطے میں انسانی حقوق پر طویل عرصے سے جاری جبر اور میڈیا کی آزادیوں اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کی ایک اور مثال ہے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ’’کشمیر میں اظہارِ رائے اور تنظیم سازی کے حقوق کا گلا گھونٹنے کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے‘‘۔

آکار پٹیل نے مزید کہا کہ ’’عرفان معراج جیسے انسانی حقوق کےمحافظین کی حوصلہ افزائی اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ انہیں تنگ کیا جائے اور اس جبر کا خاتمہ ہونا چاہیے‘‘۔ انہوں نے عرفان معراج کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔

ان کے بقول انسانی حقوق کے لیے کیے جانے والے جائز کام کو مجرمانہ قرار دینا تشویش ناک امر ہے اور حکام کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس سلسلے کو روکیں۔

صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے کا استعمال کی مخالفت

پریس کلب آف انڈیا نے عرفان معراج کی گرفتاری پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’ہم ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد پر یو اے پی اے کے استعمال کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ این آئی اے کا اس ظالمانہ قانون کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے عرفان معراج کو گرفتار کرنا آزادی اظہار کی خلاف ورزی کی طرف اشارہ کرتا ہے‘‘۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ عرفان معراج کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے عرفان معراج کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ کشمیر میں میڈیا کی آزادی کے لیے جگہ بتدریج سکڑ رہی ہے۔

اپنے ایک بیان میں گلڈ نے کہا کہ عرفان معراج کی گرفتاری کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی طرف سے صحافیوں کو حکومتی نظام پر تنقیدی رپورٹنگ کی پاداش میں گرفتار کرنے کے رجحان کی تازہ کڑی ہے۔ ان کے بقول جیل میں ڈالے گئے صحافیوں میں آصف سلطان، سجاد گل اور فہد شاہ شامل ہیں۔

بیان میں حکام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جمہوری اقدار کا احترام کریں اور یو اے پی اے کے بے جا استعمال کو روکا جائے اور قومی سلامتی کے نام پر صحافیوں کو ہراساں کرنا بند کیا جائے۔

دوسری جانب بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی سابق وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں عرفان معراج کی گرفتاری کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب کشمیر میں دھوکے باز دندناتے پھر رہے ہیں تو دوسری جانب عرفان معراج جیسے صحافیوں کو سچ بول کر اپنی ڈیوٹی انجام دینے پر گرفتار کیا جاتا ہے۔یو اے پی اے جیسےقوانین کا مسلسل غلط استعمال ہو رہا ہے۔

عرفان معراج کی گرفتاری کا دفاع

این آئی اے نے عرفان معراج کی گرفتاری کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اس لیے گرفتار نہیں کیا کہ وہ ایک صحافی ہیں بلکہ وہ ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ وابستہ رہے ہیں جو ایجنسی کے بقول مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بھارتی کشمیر میں فلاحی کاموں کے نام پرحوالہ اور دیگر غیر قانونی چینلز کے ذریعے حاصل کی گئی رقم کو لشکرِ طیبہ اور حزب المجاہدین جیسی کالعدم عسکری تنظیموں کو بھیج دیتی تھی اور اس طرح دہشت گردی کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ اس کے فروغ دینے کی مرتکب ہو رہی تھی۔

این آئی اے نے اپنے اس بیان کا اعادہ کیا کہ عرفان کی باضابطہ گرفتاری سے پہلے اکتوبر 2020 میں نئی دہلی میں یو اے پی اےکے تحت درج ایف آئی آر کے معاملے میں ان سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ ان کےبقول عرفان کو واضح اور ناقابلِ تردید شہادت و ثبوت کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے۔

ایجنسی کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ عرفان معراج نے کشمیری انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کے ایک قریبی ساتھی کے طور پر ان کے ساتھ مل کر جموں کشمیر کو لیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) میں کام کیا ہے۔ یہ تنظیم ان غیر سرکاری تنظیموں میں شامل ہے جن کے بارے میں یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ خیرات اور مختلف فلاحی کاموں کے نام پر حاصل رقم کو دہشت گرد تنظیموں کو منتقل کرتی ہیں۔

خرم پرویز کو این آئی اے نے 22 نومبر 2021 کو گرفتار کیا تھا۔ خرم پرویز دس ایشیائی ممالک میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم 13 تنظیموں کے اتحاد ایشین فیڈریشن اگینسٹ انویلینٹری ڈس اپیئرنسز (ای ایف اے ڈی) کے چیئرپرسن اور جے کے سی سی ایس کے پروگرام کو آرڈینیٹرز ہیں۔

وہ دو دبائیوں سے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو اجاگر کرنے میں کافی سرگرم رہے تھے۔

خرم پرویز کو سال 2006 میں 'ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ' سے نوازا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 2016 میں وہ ایشیا ڈیموکریسی اینڈ ہیومن رائٹس ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔

ان کی گرفتاری کے وقت این آئی اے نے کہا تھا کہ انسانی حقوق کے نام پر کیا جانے والا ان کا کام محض دھوکہ اور ایک ڈھال ہے اور ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ ایجنسی کے بقول ان کا تعلق ایک ایسی نام نہاد غیر سرکاری تنظیم سے ہے جو بھارت اور بیرون ملک امدادی کاموں کے نام پر اکٹھی کی جانے والی رقم کو بھارتی کشمیر میں علیحدگی اور دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہی تھی۔

البتہ جے کے سی ایس ایس نے خرم پرویز کی اس طرح کی کسی بھی سرگرمی میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ انہیں جھوٹے الزامات میں پھنسایا جارہا ہے تاکہ اس تنظیم کو وہ کام کرنے سے باز رکھا جاسکے جو یہ انسانی حقوق کے محاذ پر انجام دے رہی ہے۔

تنظیم نے کہا تھا کہ جے کے سی ایس ایس جموں وکشمیر میں لاپتا افراد کی بازیابی اور ان افراد کی بیویوں اور بچوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے جو شورش کے دوران لاپتا ہوگئے ہیں۔

خرم پرویز کی مسلسل نظر بندی پر مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا تھا اور ان کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

یکم مئی 2022 کو این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت میں دائر کی گئی فردِ جرم میں خرّم پرویز اور چھ دوسرے ملزموں پر لگائے جانےوالے الزامات میں یہ الزام بھی شامل ہے کہ وہ بھارت دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں جن میں حساس تنصیبات اور سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی اور نقل و حرکت کے بارےمیں معلومات اور خفیہ سرکاری دستاویزات کو حاصل کرکے انہیں مالی فائدے کے لیے رمز نگاری کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعے دہشت گردی چلانے والوں کو فراہم کرنا تھا۔

بھارت کی سب سے بڑی انسدادِ دہشت گردی ٹاسک فورس

این آئی اے بھارت کی سب سے بڑی انسداد دہشت گردی ٹاسک فورس ہے جسے یہ اختیار حاصل ہے کہ یہ ملک کی کسی بھی ریاست یا علاقے میں مقامی انتظامیہ کی اجازت حاصل کیے بغیر از خود دہشت گردی سے متعلق جرائم سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھاسکتی ہے ۔

یہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ برسوں میں بڑی سرگرم رہی ہے جہاں اسے مبینہ دہشت گردی کے کئی معاملات میں تحقیقات کرنے کا کام سونپا گیا جن میں فروری 2019 میں ضلع پُلوامہ میں کیا گیا خود کُش حملہ اور 2022 جموں میں بھارتی فضائیہ کے حساس ترین اڈے پر ڈرونز کے ذریعے کی گئی بمباری کا واقعہ بھی شامل ہیں۔

ایک اور کشمیری صحافی کے خلاف فردِ جرم عائد

عرفان معراج کی گرفتاری چند روز پہلےجموں و کشمیر کے تحقیقاتی ادارے اسٹیٹ انوسٹیگیشن ایجنسی یا ایس آئی اے نے سرکردہ کشمیری صحافی اور ’’دی کشمیر والا‘‘ نیوز پورٹل کے بانی مدیر پیرزادہ فہد شاہ اور ریسرچ اسکالر اور کالم نویس عبد العلیٰ ٰ فاضلی کے خلاف عدالت میں فردِ جرم عائد کی تھی ۔

ان پر دہشت گردی کی تعریف بیان کرنے، فیک نیوز یا جعلی خبریں پھیلانے اورقانون اور امنِ عامہ کے مسائل پیدا کرنے کے لیے عام شہریوں کو اکسانے کے الزامات میں عائد کیے گئے ہیں ۔ فہد شاہ کو پولیس نے گزشتہ برس 5 فروری کو گرفتار کیا تھا اور فاضلی کو17 اپریل کو ۔ چارج شیٹ کے مطابق 'دی کشمیر والا ' ڈیجیٹل میگزین میں جس کے فہد شاہ مالک و مدیر ہیں کچھ عرصہ پہلے ’’غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی‘‘ کے عنوان کےتحت ایک مضمون چھپا تھا جوانتہائی اشتعال انگیز اور فتنہ انگیز تھا اور اس کا مقصد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بدامنی پھیلاناتھا اور نوجوانوں کو تشدد کی راہ پر ڈالنے کے لیے اس میں دہشت گردی کی تعریف کی گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی علاقے میں نفاق پیدا کرنے اور دہشت گردی کی مہم کو جس کا مقصد بھارت کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے،کےلیے ایک جھوٹے بیانیے کا پرچار کرنا تھا۔

فہد شاہ کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے ایک سال قبل مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا تھا ۔ بعد میں انہیں پولیس کی تجویز پر سری نگر کے ضلع مجسٹریٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ یا پی ایس اے کے تحت نظر بند کرنے کے احکامات صادر کیے تھے۔

ریاست میں 1978 سے نافذ پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلینج کیا جاسکتا ہے۔ نیز ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے-

فہد شاہ کی نظر بندی کی وجوہات میں یہ وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ بچپن ہی سے انتہا پسند خیالات کے حامل رہے ہیں اور ان کےمضامین ، رپورٹوں اور دیگر تحاریر میں کشمیری عسسکریت پسندوں اور علحیدگی پسندوں کی پذیرائی کی جاتی رہی ہے جب کہ انہوں نے حکومت کے ترقیاتی اور عوام دوست کاموں کے بارے میں شاذ و نادر ہی کچھ لکھا ہے۔

وہ چار ایسےکشمیری صحافیوں میں شامل ہیں جنہیں سیکیورٹی ایجنسیز نے حالیہ برسوں میں گرفتار کرکے یو اے پی اے یا پی ایس اے کے تحت جیل میں ڈال دیا ہے ۔ تاہم رواں برس جنوری میں نئی دہلی کی ایک عدالت نے ان میں سے ایک محمد منان ڈار کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ این آئی اے نے ان پر جو الزامات عائد کیے ہیں وہ معقول اور صحیح نہیں لگتے ہیں۔

ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار وجے کمار نے فہد شاہ کی گرفتاری کا دفاع اور اس سلسلے میں صحافتی انجمنوں کی طرف سے کی جارہی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی تحاریر، جن میں سوشل میڈیا پوٹس بھی شامل ہیں، کے ذریعے ان کے بقول دہشت گردی اور دہشت گردوں کی تعریف کی ہے جو کشمیر ی نوجوانوں کو تشدد کی طرف مائل کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ پولیس عہدیدار نے اُن پر فیک نیوز یا جعلی خبر یں پھیلانے اور شہریوں کو امن و امان کے مسائل پیدا کرنے کے لیے اکسانے کا بھی الزام لگایا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں ان کے خلاف تین پولیس تھانوں میں ایف آئی آرز درج ہیں۔ وجےکمار نےکہا تھا ’’فہد شاہ سے بارہا کہا گیا کہ وہ فیک نیوز نہ پھیلائیں اور دہشت گردی اور دہشت گردوں کی تعریف نہ کریں کیونکہ اس سے نوجوان لڑکے بندوق اور تشدد کی اور مائل ہو رہے ہیں لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے‘‘۔انہوں نے مزید کہا تھا’’صحافیوں کو چاہیے کہ وہ رپورٹنگ سے پہلے کوائف کی تصدیق کرائیں اور جھوٹی خبریں نہ پھیلائیں‘‘۔

پریس کونسل آف انڈیا نے گزشتہ برس جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں مقامی انتظامیہ کی طرف سے بڑے پیمانےپر قدغنیں عائد کرنے کے نتیجے میں نیوز میڈیا کا دم گھٹ رہا ہے اور پریس کی آزادی بتدریج سلب کی جارہی ہے۔

پریس کونسل آف انڈیا 1966 میں بھارتی پارلیمان کی طرف سےقانونی طور پر قائم کی گئی ایک با اختیار تنظیم ہے جو پریس کی آزادی کے خود ضابطہ نگران کا کردار ادا کرتی ہے۔ کونسل 1978میں پاس کیے گئے پریس کونسل ایکٹ کے تحت قائم کی تھی۔

رپورٹ میں جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے جون 2020 میں جاری کی گئی نئی میڈیا پالیسی کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کی کئی ایک شقیں علاقے میں پریس کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے اختیار کیے جانے والے اقدامات کی بنیاد بن رہی ہیں۔

حکومت کا الزامات سے انکار

تاہم متعلقہ عہدیدار میڈیا پالیسی کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ جموں و کشمیر میں امن و امان اور ملک کی سلامتی کے مسائل درپیش ہیں ، یہ سرحد پار سے حمایت یافتہ در پردہ جنگ اور دہشت گردی سے لڑرہا ہےاور ایسی صورتِ حال میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ امن کو خراب کرنے کی سماج اور ملک دشمن عناصر کی کوششوں کو ناکام بنادیا جائے اور ان کوششوں کو پریس کی آزادی کو سلب کرنے کا نام دینا ایک گمراہ کن الزام ہے

حکومت کا اصرار ہے کہ جموں و کشمیر میں میڈیا کو اپنا کام کسی دھونس یا دباؤ کے بغیر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

دریں اثناء نئی دہلی کی ایک خصوصی عدالت نے بدھ کو عرفان معراج کو دس دن کے لیے این آئی اے کے ریمانڈ میں دیدیا۔ نئی دہلی کے پٹیالہ ہاؤس کی خصوصی عدالت میں عرفان کو پیش کرتےہوئے این آئی اے نے ان سے پوچھ گچھ کے لیے ان کا12 دن کا جسمانی ریمانڈ مانگا تھا ۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG