رسائی کے لنکس

کشمیری فوٹو جرنلسٹ کو پلٹزر ایوارڈ وصول کرنے نیویارک جانے سے روک دیا گیا


 پلٹزر ایوارڈ جیتنے والی بھارتی زیر انتظام کشمیر کی فوٹو جرنلسٹ ثناء ارشاد مٹو کو بھارتی حکام نے ایوارڈ وصول کرنے کے لئے نیو یارک سفر سے روک دیا ۔
پلٹزر ایوارڈ جیتنے والی بھارتی زیر انتظام کشمیر کی فوٹو جرنلسٹ ثناء ارشاد مٹو کو بھارتی حکام نے ایوارڈ وصول کرنے کے لئے نیو یارک سفر سے روک دیا ۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو کو نئی دہلی ایئر پورٹ پر طیارے میں سوار ہونے سے قبل اس وقت روکا گیا جب وہ اپنا 'پلٹز رایوارڈ' وصول کرنے کے لیے نیویارک جا رہی تھیں۔

مٹو نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ "میں اپنا پلٹزر ایوار ڈ و صول کرنے کے لیے نیویارک جا رہی تھی لیکن دہلی ائیر پورٹ پر مجھے امیگریشن حکام نے اس وقت بین الاقوامی سفر سے روک دیا جب کہ میرے پاس امریکہ کے لیے ایک مستند ویزا اور طیارے کا ٹکٹ موجود تھا۔"

مٹو نے کہا ہے کہ ایسا دوسری بار ہوا ہے کہ مجھے کسی وجہ کے بغیر روکا گیا ہے ۔ کئی ماہ پہلے اس طرح کا جو واقعہ ہوا تھا جس کے بعد کئی عہدے داروں تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود مجھے اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔

ان کا کہنا ہے کہ پلٹزر ایوارڈ کی تقریب میں شرکت میرے لیے زندگی بھر کا ایک یادگار موقع بن سکتا تھا۔

پریس کی آزادی کی علمبردار ایک غیر جانب دار تنظیم 'فری اسپیچ کولیکٹیو ' کی فاونڈر گیتا سیشو نے مٹو کی ٹویٹ پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یہ ایک انتہائی شرم ناک، کلی طور پر قابلِ مذمت اور ایک نا قابلِ فہم صورت حال ہے ، بھارتی حکومت کو کس بات کا خوف ہے ؟"

وی او اے نے تبصرے کے لیے پلٹزر ادارے سے رابطہ کیا لیکن اسے فوری طور پر کوئی جواب نہیں ملا۔

مٹو نے اپنے پاسپورٹ کے فوٹو کے ساتھ امریکی ویزے اور سرخ مہر کے ساتھ اپنے ٹکٹ کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ ان کے سفر کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ جولائی میں ہوا تھا جب انہیں ایک کتاب کی لانچنگ کے لیے پیرس جانے اور فرانس میں آرلس رینکونٹریس فوٹو گرافی فیسٹیول میں شرکت کے لیے سفر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

مٹو نے پلٹزر ایوارڈ بھارت میں کرونا بحرا ن کی کوریج پر مبنی ایک فیچر فوٹو گرافی پر جیتا تھا۔

ثنا ارشاد نے وائس آف امریکہ کے یوسف جمیل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت کی امیگریشن اتھارٹیز کی جانب سے انہیں دوسری بار غیر ملکی سفر پر جانے سے روکنے پر حیران ہیں اور پریشان بھی۔

ان کا کہنا تھا کہ"مجھے بیرونِ ملک سفر کرنے سے روکنے کی پہلے وجہ بتائی گئی تھی اور نہ اس مرتبہ بتائی گئی ہے۔ امیگریشن کاؤنٹر پر موجود اہلکار نے میرے بورڈنگ کارڈ پر منسوخ کرنے کی مہر لگائی اور پاسپورٹ سمیت مجھے لوٹا دیا۔ انہوں نے زبان سے کچھ نہیں کہا۔"

ثنا ارشاد نے کہا کہ "میں بے حد دکھی بھی ہوں۔ میں ایک صحافی ہوں اور میرے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ رویہ میری پیشہ ورانہ زندگی کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے اپنا کام کرنے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرنے سے روکا جا رہا ہے، جو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے بالکل درست نہیں ہے۔"

ایسا ہی ایک واقعہ جولائی میں ہوا تھا جب انہیں ایک کتاب کی لانچنگ کے لیے پیرس جانے اور فرانس میں آرلس رینکونٹریس فوٹو گرافی فیسٹیول میں شرکت کے لیے سفر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ ثنا ارشاد کو نئی دہلی پر روکا دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے ثنا ارشاد نے بتایا کہ اُس وقت بھی ان کی طرف سے بھارتی حکام سے رابطے کے باوجود اس کی وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔

جب اُن کی توجہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں اُن پرعائد کیے گئے ان الزامات کی طرف دلائی گئی کہ انہوں نے کشمیر میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی پذیرائی کی، تو ثنا ارشاد نے کہا کہ ایسی رپورٹوں کی ساکھ مشکوک ہے کیوں کہ ان میں کسی قابلِ اعتبار ذریعے کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کی آرا مختلف ہو سکتی ہے، جن کا وہ سوشل میڈیا پر بھی اظہار کرتے ہیں البتہ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ بحیثیت صحافی اخلاقی اصولوں کے ضابطے کے تحت کام کرتی ہیں۔

بیرونِ مک سفر سے روکنے کے حکومتی اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس بارے میں انہوں نے تاحال نہیں سوچا ۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ انہیں آزادی کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دی جائے۔ وہ صحافی ہیں اور ان ذمہ داریوں اور تفویض کیے گئے کام کے سلسلے میں غیر ملکی سفر ناگزیر ہے۔ اگر انہیں اس سے روکا جاتا ہے، تو یہ سراسر ناانصافی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ مٹو کو امریکہ کے سفر سے روک دیا گیا تھا اور وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ثناء مٹو ، پلٹزر ایوارڈ جیتنےوالی بھارتی زیر انتظام کشمیر کی فوٹو جرنلسٹ جسے بھارتی حکام نے ایک بک لانچنگ اوراپنی فوٹو گرافی کی ایک نمائش کے لئے پیرس کے سفر سے روک دیا ۔
ثناء مٹو ، پلٹزر ایوارڈ جیتنےوالی بھارتی زیر انتظام کشمیر کی فوٹو جرنلسٹ جسے بھارتی حکام نے ایک بک لانچنگ اوراپنی فوٹو گرافی کی ایک نمائش کے لئے پیرس کے سفر سے روک دیا ۔

اس سال کے شروع میں کشمیری صحافی آکاش حسن کو بھی سری لنکا کے سفر سے روک دیا گیا تھا اور 2019 میں گوہر جیلانی کو جرمنی کاسفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

میڈیا کے ایک نگران ادار ے 'رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز' (آر ایس ایف) کے مطابق اس سال عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کا درجہ 180 ملکوں کی فہرست میں گزشتہ سال کے 142ویں درجے سے گر کر 150 درجے پر چلا گیا ہے ۔

آر ایس ایف نے کہا ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد ، میڈیا میں سیاسی تعصب اور میڈیا کی ملکیت کا ارتکاز ، یہ سب اس چیز کا مظہر ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادی صحافت بحران کا شکار ہے ۔

(وی او اے نیوز)

XS
SM
MD
LG