رسائی کے لنکس

شیخ رشید نے لال حویلی کیسے حاصل کی تھی؟


لال حویلی کو شیخ رشید احمد کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز کہا جاتا ہے۔
لال حویلی کو شیخ رشید احمد کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز کہا جاتا ہے۔

ـشیخ رشید احمد اور لال حویلی کا ذکرعام طور پر پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کی خبروں میں آتا ہے لیکن آج کل ملکیت پر جاری عدالتی کارروائی کی وجہ سے میڈیا پر اس حویلی اور اس کے موجودہ اور سابق مکینوں کا چرچا ہورہا ہے۔

لال حویلی کی ملکیت کے حوالے سے متروکہ وقف املاک کی طرف سے سات دن میں اسے خالی کرنے کے نوٹس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں سیاسی رہنما شیخ رشید احمد نے کیس دائر کیا تھا، جہاں عدالت نے بورڈ کو 15 دن تک کوئی کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس ملتوی کر دیا ہے۔

بورڈ کا دعویٰ ہے کہ یہ حویلی متروکہ املاک میں شامل ہے اور شیخ رشید اسے چھوڑنے والے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے ہیں، لہذا وہ اسے سات روز کے اندر خالی کردیں ۔

شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ جائیداد خریدی تھی اور وہ اس کی قانونی ملکیت رکھتے ہیں۔

راولپنڈی کی سیاست میں لال حویلی کا نام منسلک شیخ رشید سے اس طرح منسلک ہوچکا ہے کہ یہ عمارت بھی ایک سیاسی کردار کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی یہ شناخت لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہوچکی ہے۔ شیخ رشید 16 مرتبہ وزیر بنے اور اس حویلی پر وفاقی وزارت کا جھنڈا لہرایا گیا ہے۔وہ اس حویلی میں مستقل نہ بھی رہیں لیکن میل جول اور اپنے حلقے کے لوگوں سے رابطے کے لیےکئی دہائیوں سے یہی حویلی ان کا ٹھکانہ رہی ہے۔

آئے دن شیخ رشید احمد لال حویلی کے قریب موجود ناشتے کے دکانوں پر صبح کے وقت نکلتے ہیں اور وہاں کسی بھی ٹھیلے پر کھڑے ہوکر نان نہاری یا چنوں کا ناشتہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سال میں ایک سے دو بار وہ صحافیوں کو بھی اسی طرح کے ناشتے کی دعوت دیتے ہیں، جہاں لال حویلی کے باہر کرسیاں اور میزیں لگا کر نہاری،پائے اور چنوں کے ناشتہ کے ساتھ تواضع کی جاتی ہے۔

لیکن لال حویلی کیا شروع سے ہی لال حویلی تھی؟ اس بارے میں شیخ رشید اور اس عمارت کے اطراف میں رہنے والے ایک طویل تاریخ بیان کرتے ہیں، جس میں محبت کی ایک داستان بھی شامل ہے اور اس عمارت سے جڑی پُر اسرار کہانیاں بھی۔

لال حویلی کو راولپنڈی میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
لال حویلی کو راولپنڈی میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

’یہ کبھی سہگل حویلی تھی‘

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جہلم سے تعلق رکھنے والے ایک امیر شخص دھن راج سہگل نے اس حویلی کی بنیاد رکھی تھی۔اس کا پس منظر کچھ یوں بتایا جاتا ہے کہ جہلم ہی میں ایک شادی کی تقریب کے دوران بدھاں بائی نامی ایک رقاصہ کے رقص کی محفل سجائی گئی، جہاں دھن راج سہگل ان کے عشق میں مبتلا ہوگئے تھے۔

اس کے بعد دھن راج سہگل نے راولپنڈی کے بوہڑبازار کے علاقے میں چھ کنال اراضی پر ایک حویلی بنوائی تھی، جس کا نام اس وقت ’سہگل حویلی‘ تھا۔اس حویلی میں ایک مسجد اور ایک مندر کی تعمیر بھی کی گئی تھی۔

شیخ رشید بتاتے ہیں کہ بدھاں بائی نے سہگل حویلی میں منتقل ہونے کے بعد رقص کرنا چھوڑ دیا تھا اور ایک مذہبی گھریلو عورت کی زندگی شروع کردی تھی۔ وہ اسلامی رسومات اور مذہبی محافل کراتی تھیں، جس پر دھن راج سہگل کھلے ہاتھ سے رقم خرچ کرتےتھے ۔

بدھاں بائی اس حویلی میں ہی رہتی تھیں۔ اس کے اردگرد موجود عمارت میں کئی کمرے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متروکہ وقف املاک کی طرف سے لوگوں کو الاٹ کردیے گئے اور فیکٹریوں میں تبدیل ہوتے رہے ۔ اب سہگل حویلی جو ’لال حویلی‘ بن چکی ہے وہ صرف کچھ مرلے پر قائم ہے۔

بدھاں بائی اور پر اسرار کہانیاں

بدھاں بائی کے بارے میں شیخ رشید بتاتے ہیں کہ وہ بہت خوبصورت خاتون تھیں اور وہ بچپن میں ان سے ملا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سفید بالوں والی بدھاں بائی بالکونی میں اکثر کھڑی نظر آتی تھیں اور ان کے ہاتھ میں تھری کیسل کا سگریٹ ہوتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ رقاصہ بدھا بائی کے لیے دھن راج نامی مالدار شخص نے تعمیر کرایا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ رقاصہ بدھا بائی کے لیے دھن راج نامی مالدار شخص نے تعمیر کرایا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’میں جب بھی ان سے ملتا تھا وہ مجھ سے بہت شفقت سے ملتی تھیں، آج بھی ان کی شبیہ میری آنکھوں میں ہے کہ وہ کس طرح مجھ سے ملا کرتی تھیں۔ بائی مجھے ماں کی طرح لگتی تھیں اور میرا بہت خیال کرتی تھیں۔ طویل قامت بدھاں بائی کی یادیں آج بھی میرے ذہن پر نقش ہیں۔‘‘

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بدھاں بائی خود سہگل حویلی چھوڑ کر چلی گئی تھیں، جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بعض افراد نے ہیرے جواہرات کی لالچ میں اسے قتل کر دیا تھا لیکن بدھاں بائی کے قتل کی سینہ بہ سینہ پھیلی ہوئی یہ کہانی غیر مصدقہ ہے۔

بدھاں بائی کے جانے کے بعد اس حویلی کو بھوت بنگلہ سمجھا گیا۔ اس سے کئی پراسرار کہانیاں جڑ گئیں۔

اردگرد کے لوگوں کہتے ہیں کہ انہوں نے یہاں بد روحوں کو گھومتے دیکھا اور بعض لوگوں نے گھنگھرو بجنے کی آوازیں بھی سنیں ۔ آسیب زدگی کے قصے عام ہونے کے بعد ایک عرصے تک یہ حویلی خالی رہی اور اس کی ملکیت ایک سے دوسرے مالک کو منتقل ہوتی رہی۔

جب سہگل حویلی لال حویلی بنی

شیخ رشید کا کہنا ہے کہ جب وہ سیاست میں آئے تو انہیں کسی جگہ کی ضرورت تھی، جہاں وہ بیٹھ کراپنے سیاسی دوستوں اور ساتھیوں سے میل ملاپ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیےان کے ایک قابلِ اعتماد ساتھی حیدر علی نے اس جگہ کا سودا کیا اور اس کے باقاعدہ رجسٹری بھی ان کے پاس موجود ہے لیکن اس پر متروکہ وقف املاک والے سیاسی مقاصد کی وجہ سے نوٹس ارسال کر رہے ہیں۔

لال حویلی کے حوالے سے شیخ رشید نے کہا کہ سہگل حویلی کی ہئیت موجودہ عمارت سے بہت مختلف تھی۔ جب انہوں نے یہ عمارت خریدی تو اس کے سامنے کے کچھ حصوں پر لکڑی کا کام کرایا اور اس کا رنگ لال کر دیا۔ اس کے بعد ہی ان کے بعض ساتھیوں نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ اس کا نام ’لال کوٹھی‘ رکھا جائے البتہ شیخ رشید نے اس کا نام ’لال حویلی‘ رکھا اور بعد میں اسی نام سے اسے شہرت ملی۔

شیخ رشید مزید بتاتے ہیں کہ اس عمارت میں رہتے ہوئے وہ 16 مرتبہ وزیر بنے اور یہاں پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا جب کہ آج بھی شہر میں کوئی بھی سیاسی ہلچل ہو یا کوئی بھی معاملہ ہو تو لوگ لال حویلی کا رخ کرتے ہیں۔

شیخ رشید بتاتے ہیں کہ ان کے دوستوں نے اس عمارت کا نام لال کوٹھی تجویز کیا تھا البتہ انہوں نے لال حویلی رکھا۔
شیخ رشید بتاتے ہیں کہ ان کے دوستوں نے اس عمارت کا نام لال کوٹھی تجویز کیا تھا البتہ انہوں نے لال حویلی رکھا۔

سیاسی سرگرمیوں کا مرکز

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور روزنامہ’ نوائے وقت‘ کے بیوروچیف عزیز علوی ’لال حویلی ‘ کے سیاسی سرگرمیوں کے مرکز بننے کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہلی مرتبہ 1987 کے میں یہ عمارت اس وقت لوگوں کی نظروں میں آئی جب شیخ رشید احمد نے کونسلر کا الیکشن لڑا اور راولپنڈی سے مئیر کے امیدوار بھی بنے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شیخ رشید نے لال حویلی کو ’ پبلک سیکرٹریٹ‘ قرار دے دیا تھا، جس کے بعد ان کی سیاسی زندگی کا بھرپور آغازہوا اور لال حویلی سیاسی ہلچل کا گڑھ ہوا کرتی تھی۔

عزیز علوی کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کسی بڑے سیاسی خانوادے سے تعلق نہیں رکھتے تھے، اس کے باوجود گزشتہ چار دہائیوں سے راولپنڈی کی سیاست میں چھائے ہوئے ہیں، تو اس کی ایک وجہ لال حویلی بھی ہے کیوں کہ یہاں آنے کے لیے کسی سے اجازت نہیں لینی پڑتی۔ شیخ رشید اکثر شام کے وقت لال حویلی کے باہر تھڑے پر یا کوئی کرسی لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور کوئی بھی ان سے مل سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شیخ رشید وہاں قریب ہی موجود ٹھیلوں سے کھانے پینے کی چیزیں منگوا کر اس حویلی کی رونقوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے اسی عوامی انداز کی وجہ سے آج بھی مقبول لیڈرز میں سےشامل ہیں۔

ماضی میں اس حویلی میں سیاسی شخصیات کے حوالے سے عزیز علوی نے کہا کہ تمام بڑی سیاسی شخصیات اور سفارت کار یہاں آتے رہے ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف کے علاوہ عمران خان جب2013 میں سیاسی اتحاد کے لیے شیخ رشید کی طرف آئے تو وہ لیاقت باغ میں جلسے کے لیے جانے سے پہلے لال حویلی آئے تھے۔

سیاسی مخالفت کا ہدف

لال حویلی جہاں شیخ رشید سے منسوب ہونے کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہی وہیں یہ مخالفین کا ہدف بھی بنی۔ 2007 میں سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی لیاقت باغ میں ہلاکت کے بعد اس حویلی کو آگ لگانے کی کئی کوششیں بھی کی گئیں لیکن وہاں موجود گارڈز نے ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔

اس حویلی میں شیخ رشید کا ایک انداز ہمیشہ سے مشہور رہا ہے کہ وہ ہر الیکشن کے بعد رات گئے اپنی والدہ سے مبارک باد وصول کرنے اس حویلی میں آتے اور پھر بالکونی سے خطاب کرتے تھے۔

شیخ رشید نے 1980 کی دہائی میں لال حویلی کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔
شیخ رشید نے 1980 کی دہائی میں لال حویلی کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔

لیکن ان کی زندگی کا ایک الیکشن سال 2008 کا ایسا تھا جس میں جاوید ہاشمی کے مقابلے میں انہیں شکست ہوئی تھی اور اس رات وہ حویلی کی بالکونی میں کھڑے ہوکر خطاب نہ کرسکے۔ ان انتخابات سے کچھ دن قبل ان کی والدہ بھی دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں۔

لال حویلی کے علاوہ شیخ رشید وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں بھی ایک گھر کے مالک ہیں جب کہ پنجاب میں فتح جنگ کے قریب ایک فارم ہاؤس بھی ان کی ملکیت ہے، جس کا نام انہوں نے ’فریڈم ہاؤس‘ رکھا ہے البتہ شیخ رشید کا سیاسی پتہ ’لال حویلی‘ ہے ۔

XS
SM
MD
LG