رسائی کے لنکس

عمران خان کی کامیابی، ضمنی انتخابات کے نتائج کیا بتاتے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بعض مبصرین کے مطابق ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان کی واضح برتری نے ان کے سیاسی بیانیے کی عوامی پذیرائی کے تاثر کو مزید تقویت دی ہے۔ ان نتائج کے بعد عمران خان کی مقبولیت کے اسباب اور آئندہ سیاسی حکمتِ عملی انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والوں کی دلچسپی کابھی محور ہیں۔

اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سے چھ پی ٹی آئی نے حاصل کی ہیں۔ان سب نشستوں پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کامیاب ہوئے ہیں۔ دیگر دو نشستوں میں سے کراچی اور ملتان کی ایک ایک نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو برتری ملی ہے۔

اِس کے علاوہ پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں سے دو پی ٹی آئی نے جیتیں اور ایک نشست مسلم لیگ (ن) نے حاصل کی ۔

حالیہ انتخابات کے نتائج کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد میں سے برسرِ اقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں جیت سکی ہے حالاں کہ اِن حلقوں کے بارے ایک عام تاثر یہ پایا جاتا تھا کہ حکومت نے اِن حلقوں کو محفوظ تصور کرتے ہوئے ان پر تحریکِ انصاف کے ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کیے تھے کیوں کہ اِن حلقوں میں پی ٹی آئی کو 2018 کے عام انتخابات میں معمولی برتری ملی تھی۔

اِس سے قبل رواں برس جولائی میں پنجاب کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں سے 15 پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تھی۔

ضمنی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے ان نتائج سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافے ، اس کے اسباب اور دیگر سیاسی جماعتوں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت اور انتخابی سیاست میں اس کے مستقبل سے متعلق کئی سوالات کو اہم بنا دیا ہے۔

ضمنی انتخابات کے نتائج کیا بتاتے ہیں؟

مبصرین سممجھتے ہیں کہ ن لیگ چند ماہ قبل تک’ ووٹ کو عزت دو‘کا نعرہ لگاتی تھی، جو عوام میں مقبول بھی تھا مگر اَب عوام کی آواز عمران خان بن گئے ہیں۔

پاکستان میں انتخابی امور پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی‘ (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کی جیت اس تسلسل کا تاثر ہے کہ جب سے اُنہیں حکومت سے ہٹایا گیا ہے، ان کی مقبولیت جلسوں کے ساتھ انتخابی نتائج میں بھی نظر آ رہی ہے۔ اَب تک ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں اُن کی مقبولیت بڑھتی ہوئی نظر آئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عمران خان کی مقبولیت کے کچھ عوامل ہیں۔ پہلے نمبر پر یہ کہ جن شخصیات کو مصنوعی طریقوں سے حکومت سے ہٹایا جاتا ہے، ان کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں ہوتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک زبردست کمپنیر ہیں اور اپنی بات زبردست انداز میں لوگوں تک پہنچانے کا ہنر جانتے ہیں۔

ان کے نزدیک عمران خان کی پذیرائی کا تیسرا بڑا سبب حکومت کی پالیسیاں ہیں۔ ان کے مطابق وہ مجبور ہیں یا حکومت کی اپنی نالائقی ہے بہر حال ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معیشت کی حالت اچھی نہیں ہے، جن کے اثرات حکومت کے خلاف جاتے ہیں۔

ان کے مطابق کوئی عمران خان کی بات سے اتفاق کرے یا اختلاف کرے، لیکن وہ جلسوں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کے پاس گئے ہیں، جس میں اُنہوں نے ایسی چیزوں پر بات کی ہے جو براہِ راست لوگوں کے جذبات کو چھوتی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ 2018کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں 15 کے قریب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں سے 14 ن لیگ جیت گئی تھی۔ جس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ اُس وقت کی حکومت غیر مقبول ہو گئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں دو عنصر قابلِ غور ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ ماسوائے ایک نشست کے عمران خان تمام نشستوں پر خود کھڑے تھے۔ وہ یہ جیت بھی گئے ہیں۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ کب تک سات سات نشستوں سے الیکشن لڑ کر اپنی ساکھ بچائیں گے۔ ملتان میں عمران خان نہیں تھے تو وہاں کے نتائج بھی مختلف آئے۔

سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنی جیتی ہوئی نشستیں چھوڑتے ہیں تو تب مقابلہ پہلے سے زیادہ سخت ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) نے اِن انتخابات کے لیےمہم نہیں چلائی ہے۔ مریم نواز لندن چلی گئیں اور حمزہ شہباز اپنی بیماری کا بہانہ کر کے باہر نہیں نکلے جب کہ عمران خان نے حالیہ انتخابی مہم کے دوران 21 جلسے کیے ہیں جو کہ بڑے جلسے تھے۔ جن سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان نے سیاسی طور پر مسلم لیگ (ن) کو برباد کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں ہونے والے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں جن لوگوں کو ٹکٹ دیے گئے تھے اُن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، جن کے نتائج سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے اُنہیں اپنا ووٹ نہیں دیا۔

عمران خان کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟

الیکشن کمیشن کے مطابق حالیہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے پانچ لاکھ 47 ہزار جب کہ حکومتی اتحاد میں شامل پی ڈی ایم کی جماعتوں نے لگ بھگ چار لاکھ 75 ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں۔

سلیم بخاری کی رائے میں عمران خان کا سخت اور کرخت سیاسی لہجہ برقرار رہے گا۔ ان کی سیاست کا انداز تبدیل نہیں ہو سکتا نہ ہی وہ اِسے بدلیں گے۔

ان کے بقول، ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اچانک جمہوری ہو کر جمہوریت کی بات کرنے لگیں گے، ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یہ اُن کا اسٹائل ہے۔ وہ مخالفت کی سیاست کرتے رہیں گے۔ جس کا وہ خود بھی کہتے رہتے ہیں کہ وہ اقتدار سے باہر ہوں گے تو زیادہ خطرناک ہوں گے۔

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کی رائے میں موجودہ اور ماضی قریب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ عمران خان کا طرزِ سیاست تبدیل نہیں ہوگا۔ یہ طرزِ سیاست اُن کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اِسی طرزِ سیاست نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک مقبول سیاسی شخصیت ہیں اور عوام اُنہیں پسند کرتے ہیں۔

احمد بلال محبوب کے مطابق جن نشستوں پر عمران خان کو کامیابی ملی ہے انہیں وہاں 2018 کے عام انتخابات میں ڈلنے والے ووٹوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ن لیگ کے ووٹوں کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان ے اپنی بات کو باآوازِ بلند حکومت اور دیگر اداروں تک پہنچا دیا ہے۔ وہ قبول کریں یا نہ کریں یہ اُن پر منحصر ہے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اسد عمر نے گزشتہ روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان جیتنے والی نشستوں میں سے کسی پر حلف لیں گے اور نہ ہی ایوان میں جائیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ملک کے پالیسی سازوں کو انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے۔

’مارچ کی دھمکی مارچ کرنے سے زیادہ فائد ہ مند ہے‘

سابق وزیراعظم اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان حکمران اتحاد کے خلاف اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مسلسل لانگ مارچ کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ اس کی وقتاً فوقتاً تیاری بھی کرتے رہتے ہیں اور کئی مواقع پر اپنے حامی کارکنوں سے عوامی جلسوں میں لانگ مارچ میں شرکت کا حلف بھی لیتے رہے ہیں۔

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کی رائے میں لانگ مارچ کرنے کی نسبت اِس کا خوف زیادہ مفید ہے۔ لانگ مارچ کر کے عمران خان کیا ثابت کرنا چاہیں گے؟ کیا وہ پولیس ، رینجرز اور فوج کے ساتھ لڑیں گے؟ کچھ لوگ زخمی ہوں گے اور جانی نقصان کا خدشہ بھی ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کی صورت میں اگر حالات زیادہ خراب ہوئے تو تیسری قوت تو آسکتی ہے لیکن اِس کے نتیجے میں حکومت عمران خان کے ہاتھ میں نہیں آئے گی۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک عرصے سے لانگ مارچ کا لفظ استعمال ضرور کر رہے ہیں لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مارچ کی دھمکی دینا مارچ کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اُن کے بقول، لانگ مارچ کے عمران خان کو خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے مارچ کے لیے اِن ضمنی انتخابات کا انتظار کیا تھا تا کہ وہ اسے تھوڑا سا جاندار بنا سکیں۔ وہ کئی ہفتوں سے مارچ کی تاریخ کا اعلان ٹالتے رہے ہیں۔ اگر وہ مارچ لے کر جاتے ہیں تو دیکھنا یہ ہوگا کہ اُن کی مقبولیت کہاں کھڑی ہوتی ہے۔ جس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔

اُن کہنا تھا کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان اُن کی اپنی سیاسی جماعت کے لوگ بھی کر رہے ہیں اور کارکن بھی۔ جس بارے میں شیخ رشید کہہ بھی چکے ہیں کہ اُنہیں مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے۔

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج آئندہ آنے والے عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG