پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں آنے والی تبدیلی کے بعد افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑے۔
چوتھے پارلیمانی سال کے آغاز پر پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر علوی کا کہنا تھا کہ دنیا کو افغان عوام کی مدد کرنی چاہیے تاکہ کوئی انسانی المیہ جنم نہ لے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا شروع سے ہی یہ مؤقف تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں اور آج دنیا اس مؤقف کو تسلیم کر رہی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 56 (3) کے تحت پارلیمانی سال کے آغاز کے لیے صدارتی خطاب لازمی ہے جس کے بعد موجودہ قومی اسمبلی کے چوتھے پارلیمانی سال کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔
صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
صدرِ پاکستان کے خطاب کے دوران پارلیمنٹ کے باہر شاہراہ دستور پر مجوزہ میڈیا اتھارٹی بل کے خلاف صحافیوں کا احتجاجی دھرنا بھی جاری رہا۔
عارف علوی نے افغانستان میں گزشتہ ماہ کے وسط میں آنے والی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان رہنماؤں کے بیانات حوصلہ افزا ہیں اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں دنیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت افغان عوام کو متحد کرے اور افغان کی سر زمین سے پڑوسی ممالک کو خطرہ نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے انسانی ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کے تصور کے تحت پچھلی چار دہائیوں سے 35 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کو بھی پناہ دے رکھی ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ حکومت کی دانشمندانہ پالیسوں کے نتیجے میں پاکستان نے تین سال میں تمام پہلوؤں میں قابلِ قدر کارکردگی دکھائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو ماننا پڑے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔
صدر عارف علوی کے خطاب کے موقع پر اسپیکر کی جانب سے پریس گیلری کو بند کردیا گیا اور پارلیمانی صحافیوں کو پریس گیلری میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے اس اقدام پر احتجاج کیا اور پارلیمنٹ کے داخلی دروازے پر بیٹھ کر نعرے بازی کی۔
صدر عارف علوی نے اپنی تقریر کے دوران میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی جب انہوں نے پریس گیلری کو خالی پایا تو غیر ارادی طور پر ہاتھ کے اشارے سے معلوم کیا کہ صحافی گیلری میں کیوں موجود نہیں ہیں۔
پارلیمانی صحافیوں نے حکومت کی جانب سے لائے جانے والے میڈیا قوانین کے خلاف صدر علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے موقع پر پریس گیلری سے واک آؤٹ کا فیصلہ کر رکھا تھا۔
صحافیوں کی جانب سے پریس گیلری سے واک آؤٹ کے ممکنہ خدشے کے پیش نظر صحافیوں کو محدود تعداد میں اجلاس کی کوریج کے کارڈز جاری کیے گئے اور ان صحافیوں کو بھی پریس گیلری تک رسائی نہیں دی گئی۔
اجلاس کے بعد ایک صحافی نے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے سوال کیا کہ رپورٹرز کو پریس گیلری جانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ اُنہیں اس کا علم نہیں وہ اسپیکر قومی اسمبلی سے اس معاملے میں بات کریں گے۔