خیبر پختونخوا کی پولیس نے ضلع چارسدہ میں ڈھائی سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے مشتبہ ملزم کی نشان دہی کر لی۔ ملزم زیرِ حراست 15 افراد میں شامل ہے۔
مقامی پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ گرفتار مشتبہ شخص کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔
چارسدہ کے علاقے سردریاب کے گاؤں جبہ کورونہ سے تعلق رکھنے والی ڈھائی سالہ زینب گزشتہ منگل کی صبح گھر کے باہر سے غائب ہوئی تھی اور رات گئے اس کی تشدد زدہ لاش ایک ویرانے سے ملی تھی۔
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گرفتار مشتبہ ملزم کی تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر طبی معائنے کیے جا رہے ہیں۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ گرفتار مبینہ ملزم نے اعترافِ جرم کر لیا ہے۔ جب کہ اس کے قبضے سے آلہ قتل بھی برآمد کیا جا چکا ہے۔
پولیس افسر کے مطابق مشتبہ ملزم کی عمر 45 سے 50 سال ہے۔
مقامی میڈیا میں بھی ملزم کی گرفتاری کی خبریں نشر کی جا رہی ہیں۔ البتہ حکام نے سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی بچی کے قتل سے قبل زیادتی کی تصدیق ہوئی تھی۔ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے جمعرات کو واقعے کا نوٹس لیا تھا۔ جس کے بعد پولیس نے مشتبہ افراد کو حراست میں لینا شروع کیا تھا۔
وزیرِ اعلیٰ کے نوٹس کے بعد انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس ثنا اللہ عباسی نے چارسدہ جاکر پولیس کارروائی اور تفتیش کا جائزہ لیا تھا ۔
جسمانی تشدد کے بعد قتل کی جانے والی ڈھائی سالہ بچی کے والد نے بھی ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے ملزم کو سر عام پھانسی دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
مقامی لوگوں، مختلف سیاسی جماعتوں، طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کے کارکن بھی واقعے میں ملوث ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔