اسلام آباد میں پانچ روز قبل اغوا ہونے والی دس سالہ بچی کی لاش جنگل سے برآمد ہوئی ہے، جس کے بارے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔
اسلام آباد کے شہزاد ٹاؤن تھانے کے رہائشی، گل نبی نے 16 مئی کو پولیس کو درخواست دی تھی کہ اس کی دس سالہ بیٹی فرشتہ گھر سے کھیلنے کے لیے نکلی، لیکن واپس نہیں آئی۔ انھیں شبہ تھا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔ اس معاملے پر پولیس نے صرف رپورٹ درج کی۔ تاہم، چار روز گزرنے کے بعد پولیس نے 19 مئی کو باقاعدہ ایف آئی آر درج کر لی اور 21 مئی کی شام کو جنگل سے اس کی نعش برآمد ہوئی۔
بچی کی نعش کو اسلام آباد کے پولی کلینک اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔
فرشتہ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اس کے والدین کا تعلق سابق قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے ہے اور اس کا والد اسلام آباد میں محنت مزدوری کرتا ہے۔
پولیس کے مطابق، جنگل کے قریب سے گزرنے والے عام شہریوں نے نعش دیکھنے کے بعد پولیس کو اطلاع دی جسے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کے گھر والوں نے اسے شناخت کر لیا۔
ابتدائی معلومات کے مطابق، نامعلوم شخص نے فرشتہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے جنگل میں پھینک دیا تھا۔
نعش ملنے کے بعد لواحقین نے اس قتل پر پولی کلینک ہسپتال کے سامنے شدید احتجاج کیا۔
اس احتجاج میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر بھی شریک ہوگئے جنہوں نے اسپتال کے سامنے دھرنا دیا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی وزیر نے کہا کہ ’’ہماری ایک بچی کو قتل کیا گیا ہے اور اب اس کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا جا رہا۔ ایک بچی کو اغوا کیا گیا اور قتل کیا گیا اور ریاست کہیں نظر نہیں آ رہی‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم نعشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔ کبھی ہمیں بم سے اڑایا جاتا ہے اور کبھی قتل کیا جاتا ہے اور کبھی ہمارے بچوں کو مار دیا جاتا ہے۔ یہ غریب لوگ یہاں مزدوری کرنے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن انہیں یہاں کوئی تحفظ حاصل نہیں‘‘۔
رات گئے لواحقین کے احتجاج کا سلسلہ جاری تھا اور اسپتال انتظامیہ نے پولیس کو طلب کر لیا تھا۔
اس کیس کے متعلق رات گئے پولیس کا موقف جاننے کے لیے پولیس حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کسی پولیس اہل کار نے اس معاملے پر بات نہیں کی۔
پاکستان میں بچوں کے ساتھ ماضی میں بھی زیادتی کے کئی واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال قصور سے تعلق رکھنے والی پانچ سالہ زینب کو بھی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔
زینب قتل کیس میں پولیس نے عمران نامی ملزم کو گرفتار کیا جس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا۔ مجرم عمران کو تیز ترین ٹرائل کے بعد گزشتہ سال ہی زینب اور قصور کی کئی بچیوں کے ریپ اور قتل کے الزام میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔