شمالی پولینڈ کے چھوٹے سے شہر موراگ میں آسمان کی طرف رخ کیے چند پیٹریاٹ میزائل لانچنگ پلیٹ فارمز پر نصب ہیں۔ تقریباً سو امریکی سپاہی ایک تقریب میں ڈیوٹی کے لیے حاضر ہوئے ہیں ۔ پولینڈ میں پہلی بار طویل مدت کے لیے اتنے امریکی فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔
یہ سپاہی 2012 کے آخر تک آتے جاتے رہیں گے اور اس دوران وہ پولینڈ کی فوج کو پیٹریاٹ میزائل سسٹم کے استعمال کی تربیت دیں گے۔ یہ تعیناتی اس سمجھوتے کا حصہ ہے جس کے لیے سابق صدر جارج ڈبلو بُش نے 2008 میں مذاکرات کیے تھے۔
لیکن یہ نئی تنصیب روس کے سرحدی قصبے کالنِن گارڈ سے صرف 64 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ روسی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان سے یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس مقام کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے ۔ اس اقدام سے علاقے میں نہ استحکام میں اضافہ ہو گا اور نہ اعتماد میں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ روس نے اپنی سرحد کے قریب نیٹو کے ساز و سامان کی تنصیب پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ روسی عہدے داروں نے میزائل کے اس دفاعی نظام کی بھی مذمت کی تھی جس کا منصوبہ صدر جارج ڈبلو بش نے پولینڈ اور جمہوریہ چیک کے لیے بنایا تھا۔ امریکہ کا موقف یہ رہا ہے کہ اس دفاعی ڈھال کا مقصد ایران کے مزائلوں سے بچاؤ ہے لیکن روس اسے اپنے لیئے خطرہ سمجھتا ہے ۔ گذشتہ سال صدر اوباما نے اس منصوبے کو ترک کر دیا اور اس کے بجائے مزائلوں کا نسبتاً محدود نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا اور بعض لوگوں نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ روس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
موراگ میں ایک پریس کانفرنس میں پولینڈ کے وزیرِ دفاع بوگدان کلچ نے کہا کہ پولینڈ کی سر زمین پر امریکی فوجوں کی موجودگی سے پولینڈ کی سکیورٹی میں اضافہ ہوا ہے ۔ پولینڈ میں جتنی زیادہ امریکی فوجیں ہوں گی، امریکہ اور یورپ کے لیے نیٹو کے آرٹیکل پانچ پر عمل کرنا اتنا ہی آسان ہوگا ۔ آرٹیکل پانچ میں کہا گیا ہے کہ نیٹو کے کسی بھی رکن پر حملہ تمام ارکان پر حملہ سمجھا جائے گا۔
لیکن کِلچ نے اصرار کیا کہ امریکی پٹریاٹ میزائلوں سے روس کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے کہا’’ یہ بات سمجھنے کے لیے کوئی ماہر ہونا ضروری نہیں ہے کہ اس قسم کے ہتھیار صرف دفاع میں استعمال ہو سکتے ہیں انہیں حملے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ پولینڈ کے کسی ہمسایے کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔‘‘
سابق وزیرِ دفاع Janusz Onyszkiewicz جو آج کل وارسا میں سنٹر فار انٹرنیشنل ریلیشنز سے وابستہ ہیں کہتے ہیں کہ روس کو اصل پریشانی پیٹریاٹ میزائلوں سے یا میزائل کے دفاعی نظام سےنہیں ہے، بلکہ اس بات پر ہے کہ اس طرح امریکہ کو اسٹریٹجک برتری حاصل ہو جاتی ہے۔
انھوں نے کہا’’روسی جس بات سے خوفزہ تھے اور میرے خیال میں اب بھی ہیں، وہ یہ ہے کہ میزائل کے دفاعی نظام سے امریکیوں کو ٹیکنالوجیکل شعبے میں زبردست برتری حاصل ہو جائے گی اور وہ اس نظام کو ابتدائی اندازے سے کہیں زیادہ دور تک استعمال کر سکیں گے۔ ان حالات میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے شعبے میں ،جس میں روس امریکہ کے برابر تھا، روس کی برتری ختم ہو جائے گی۔ روسی یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا مرتبہ کم ہو اور اسی وجہ سے میزائل کے دفاعی نظام کے بارے میں پریشان تھے ۔‘‘
فی الحال پولینڈ کے چھ لانچنگ پلیٹ فارم خالی رہیں گے اور ان پر اصلی میزائل نصب نہیں ہوں گے۔ لیکن پولینڈ میں امریکہ کے سفیرلی فئینسٹئین نے موراگ میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ صورتِ حال بالآخر تبدیل ہو جائے گی۔ انھوں نے کہا’’ہمارے ذہن میں فوجی کارروائیوں کا ایک تصور ہے ۔ اس تصور کی بنیاد یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ آپ دوڑنا سیکھیں، آپ کو چلنا آنا چاہیئے ۔ اس وقت ہم اس آپریشن کو موجودہ حالات کے مطابق ترتیب دے رہے ہیں لیکن مستقبل کے آپریشن میں اصل میزائل بھی شامل ہوں گا۔‘‘
ہمسایہ ملک روس کے شکو ہ و شکایت کے باوجودموراگ کے باسی خوش نظر آتے ہیں۔ انہیں امریکی فوجیوں کی میزبانی اور ان کے فوجی سازو سامان کی وصولی پر خوشی ہوئی ہے۔ ایک مقامی خاتون کے خیال میں ان تنصیبات کی میزبانی سے علاقے کی سکیورٹی میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ پولینڈ کے حکام موراگ پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور ہوجائیں گے اور یو ں ان کا شہر رہنے کے لیے بہتر جگہ بن جائے گا۔