رسائی کے لنکس

’پوائنٹ اینڈ شوٹ‘: لیبیا کے انقلاب پر مبنی فلم


بن غازی
بن غازی

جب میں قید سے واپس لوٹا، تو کچھ نہیں بدلا تھا۔ جب لیبیا واپس آیا، تو میں نے وہاں لوگوں کو بتایا کہ میں لیبیا کے آزاد ہونے تک وہیں رہوں گا۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں گن اور دوسرے ہاتھ میں کیمرہ اٹھائے، میں نے اپنی فلم اور تجربات کو یکجا کیا۔۔۔یوں، فلم بن گئی

اپنا ویڈیو کیمرا اٹھائے، ایک امریکی نوجوان نے موٹرسائیکل پر عرب دنیا کا سفر شروع کیا جو لیبیا میں ہونےوالی باغی جھڑپوں پر ختم ہوا۔۔۔

سننے میں تو یہ کوئی فکشن معلوم ہوتا ہے، مگر یہ ایک سچی کہانی پر مبنی نئی ڈاکیومینٹری فلم ہے جسے ڈائریکٹر مارشل کیوری نے ’پوائنٹ اینڈ شوٹ‘ کے نام سے بنایا ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر میتھیو وینڈیک ہیں۔

وینڈیک نے سیکورٹی اسٹڈیز میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے، جو میری لینڈ میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے اور گھریلو کام کاج کرتے ہیں۔

اپنی زندگی کو ایک نئی راہ دینے کیلئے وینڈیک نے ایک موٹرسائیکل خریدی اور اسے 5600 کلومیٹر تک عرب دنیا میں چلایا اور اسی دوران خود ہی ایک فلم بھی پروڈیوس کر ڈالی۔

ایک انٹرویو میں، ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنی ہی تلاش کا ایک سفر تھا۔ انھوں نے ایسے ہی ایک ایڈوینچر کا سوچا تھا، جو سفر پر مبنی اور کہانیوں سے لبریز ہو۔

یہ سفر چھوٹے چھوٹے خطروں سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ گندگی کے ڈر کے باعث، وہ دن میں کئی بار ہاتھ دھوتا اور نہاتا؛ اور لیبیا کے لوگوں کی طرح ایک برتن میں کھانا کھاتا۔

ایک اور بڑا چیلنج یہ سامنے آیا کہ اس کی موٹرسائیکل مٹی میں دھنس کر ٹوٹ گئی۔ پھر یہ کہ، کابل میں کیسے اسے گلی کے ڈاکووٴں نے لوٹا۔

بقول اُن کے، عراق میں امریکی فوجیوں نے اسے بتایا کہ کیسے ہتھیاروں سے آٹومیٹک فائر ہوتا ہے۔ اسلحہ ہاتھ میں اٹھانا زندگی میں اُس کا پہلا تجربہ تھا۔

اُن کا کہنا ہے کہ جب لیبیا میں انقلاب شروع ہوا تو وہ دوبارہ اپنی دوست اور والدہ کے ساتھ واپس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ وہ کہتا ہے کہ ’جب انقلاب شروع ہوا تو میں اپنے دوستوں کے ساتھ انٹرنیٹ اور فون کے ذریعے رابطے میں تھا۔ وہ مجھے بتاتے تھے کہ کب، کہاں کیا ہو رہا ہے۔ میں نے جانا کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں کے لوگوں کے بارے میں مجھے فکر لاحق تھی۔

میں نہ گھر پر بیٹھ سکا اور نہ ہی کچھ کرنے کے قابل تھا۔ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ دوسری جانب، مجھے دوستوں کی مدد کرنی تھی۔

بعدازاں، وہ نوری نامی لڑکی اور دوسرے باغیوں سے ملا۔ وہ معمر قذافی کی فوج کا قیدی بھی رہا۔

وینڈیک کا کہنا ہے کہ ’میں ایک 'بریگا' نامی مشن پر تھا۔ جب میں زخمی ہوا اور ہوش کھو بیٹھا، تو آنکھ کھلنے پر میں قید میں تھا۔ اور ایسے میں، ایک آدمی کو ٹارچر سیل میں تشدد کیے جانے کی آوازیں آ رہی تھیں!

’نا میرے پاس کتابیں تھیں۔ نا پڑھنے کیلئے کچھ۔ نا کچھ کرنے کیلئے تھا۔ کسی کو معلوم نا تھا کہ میں ایک خطرناک قید میں تھا۔ وینڈیک نے بتایا کہ اس نے اس قید میں چھ ماہ گزارے۔

جب میں قید سے واپس لوٹا تو کچھ نہیں بدلا تھا۔ جب لیبیا واپس آیا، تو میں نے وہاں لوگوں کو بتایا کہ میں لیبیا کے آزاد ہونے تک وہیں رہوں گا۔

ایک ہاتھ میں گن اور دوسرے ہاتھ میں کیمرہ اٹھائے وینڈیک نے اپنی فلم اور تجربات کو فلمایا اور ان لوگوں کو بھی جو فیس بک پر اپنی تصاویر اپ لوڈ کرتے تھے، یہ پہلی جنگ تھی جس ہر ایک حقیقی وقت میں ڈوکیومنٹری بنائی گئی۔

جب انقلاب جیت گیا، تو وینڈیک واپس امریکا آگئے۔ اور، فلم ’پوائنٹ اور شوٹ‘ کیلئے انھیں ’اکیڈمی ایوارڈ‘ کیلئے نامزد کیا گیا۔ اس کے بعد، وینڈیک ایک اور حقیقی جنگ پر مبنی فلم بنانے کے لیے نکل پڑے جسکا نام ’ناٹ اینی مور‘ ہے۔ اور، سائیریا کے انقلاب پر مبنی ہے جسکے لئے وہ فنڈ اکٹھا اور شعور بیدار کرنا چاہتے تھے۔

ان دونوں فلموں نے نامی گرامی ایوارڈ حاصل کئے اور ٹریبیکا فلم فیسٹیول میں ٹاپ فلموں کا ایوارڈ حاصل کیا۔

وینڈیک نے فلم پروڈکشن کو ایک طرف رکھ کر اپنے آپ کو سائیریا میں لڑنےوالے گروپوں، بشارالاسد اور داعش کے نام کردیا ہے۔

ایک انٹرویو میں، وینڈیک نے کہا ہے کہ ’میں نے بہت سالوں میں کئی ممالک کی سڑکوں پر خاص طور پر لیبیا میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب داعش کے خلاف لڑنے کے نئے طریقوں کی تلاش ہے۔

لیبیا کے بعد، اب سائیریا میں لڑنےوالے افراد کا ساتھ دینا چاہتا ہوں، جن کے پاس ناکافی ہتھیار ہیں۔ میں کوئی'ریمبو' نہیں ہوں، بلکہ میں بھی انھی افراد میں شامل ہونا چاہتا ہوں جو وہاں سرگرم ہیں۔

ان کی 'پوائنٹ اینڈ شوٹ' نامی ڈاکیومینٹری فلم امریکی سینماوٴں کی زینت بن چکی ہے اور وینڈیک عراق جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اور انسانی مدد کیے اکٹھے کئےگئے فنڈز کو کردوں میں بانٹیں گے۔

XS
SM
MD
LG