رسائی کے لنکس

پاکستان پڑوسیوں سے پرامن بقائے باہمی پر مبنی تعلقات کا خواہاں


بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اُن کا ملک خطے کے تمام ممالک کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی تعلقات پر یقین رکھتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے نئے سال کے آغاز پر ایک مرتبہ پھر اس عزم کو دہرایا کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سمیت خطے کے تمام ملکوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں منگل کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سمیت دیگر متعلقہ عہدیداروں نے شرکت کی۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق اس اجلاس میں پاکستان کے خطے کے ممالک اور اسٹریٹیجک شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں غور کیا گیا۔

بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے درپیش چینلجوں اور اُن سے نمٹنے کی حکمت عملی کا بھی جائزہ لیا گیا۔

بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اُن کا ملک خطے کے تمام ممالک کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی تعلقات پر یقین رکھتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے کے تمام ممالک سے اچھے تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔

اُن کے بقول ’’اگر ہمارا کسی چیز پر اتفاق نہیں ہے تو مل بیٹھ کر گفت و شنید سے اُسے حل کرنا چاہیئے۔‘‘

منگل ہونے والے اجلاس کے بعد جاری بیان میں کسی ملک کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن پاکستان کے اپنے دو اہم پڑوسی ممالک بھارت اور افغانستان سے گزشتہ سال تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے اوڑی میں فوج کے ایک ہیڈکوارٹر پر مشتبہ دہشت گرد حملے کے بعد سے پہلے سے کشیدہ پاک بھارت تعلقات میں مزید تلخی آ گئی تھی اور دنوں ممالک کے طرف سے نا صرف سخت بیانات کا سلسلہ جاری رہا بلکہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات میں دونوں جانب بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی ہوا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی تاحال برقرار ہے اور اس میں ٖبظاہر فوری طور پر تو کمی کے امکانات نظر نہیں آتے۔

البتہ گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے علاقائی امن کے لیے اُن کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کو دہرایا تھا۔

جب کہ افغان قیادت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو دورہ افغانستان کی دعوت بھی دی تھی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس رابطے سے سال 2017 میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں مدد مل سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG