رسائی کے لنکس

پاناما لیکس: وزیراعظم کی طرف سے کمیشن کا دفاع، حزب اختلاف کی مشاورت


اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان حکومت کی طرف سے لکھے گئے خط پر غور کر رہے مگر تاحال اس کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ انہوں نے پاناما لیکس سے متعلق بدعنوانی کے الزامات پر حزب اختلاف کے مطالبے کے مطابق ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے پر اتفاق کیا ہے جو حقائق سامنے لائے گا۔

وزیراعظم نے یہ بات پیر کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب میں ایسے وقت کہی ہے جب حزب اختلاف کی جماعتوں نے مجوزہ کمیشن کا ضابطہ کار طے کرنے کے لیے اسلام آباد میں مشاورت کی۔

یاد رہے کہ اپریل میں پاناما سکینڈل میں وزیراعظم کے تین بچوں کے نام سامنے آنے کے بعد سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی ساخت اور دائرہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کشمکش جاری ہے۔

ابتدائی طور پر وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمشین بنانے کا اعلان کیا تھا مگر بعد ازاں اپوزیشن کی طرف سے احتجاج کی دھمکی کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط کے ذریعے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔

اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان حکومت کی طرف سے لکھے گئے خط پر غور کر رہے مگر تاحال اس کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔

تاہم اپوزیشن جماعتیں حکومت کی طرف سے طے کیے گئے کمیشن کے ضابطہ کار سے مطمئین نہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس کا ضابطہ کار متفقہ طور پر طے کیا جائے۔

اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کمیشن کو پارلیمان یا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانونی تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔

پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کمیشن کو پہلے مرحلے میں وزیراعظم کے اہل خانہ کے خلاف الزامات پر اپنی تحقیقات کرنی چاہئیں جبکہ دوسرے مرحلے میں پاناما دستاویزات میں لیے گئے دیگر پاکستانی ناموں پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔

ان دستاویزات کے مطابق وزیراعظم کے تین بچوں حسن، حسین اور مریم نے برٹش ورجن آئی لینڈز میں آف شور کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں جن کے ذریعے انہوں نے لندن میں جائیداد خریدی۔

اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا الزام ہے کہ وزیر اعظم کے اہل خانہ نے ان کمپنیوں کو پاکستان سے رقوم بیرون ملک منتقل کرنے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جو بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔

تاہم حکومتی عہدیداروں کا اصرار ہے کہ وزیراعظم یا ان کے بچوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔

خود نواز شریف نے پیر کو حزب اختلاف پر بدعنوانی کے نام پر بحران پیدا کرنے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جس ملک میں آئے دن دھرنے اور ہنگامے ہوں وہاں سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔

’’تین سال گزر چکے ہیں۔ ان سالوں میں وزیراعظم ہو یا کوئی مرکزی وزیر کسی کے خلاف کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ الزام کا معاملہ دوسرا ہے۔ کسی کی زبان بند نہیں کی جا سکتی۔ کچھ لوگوں نے کرپشن کے نام پر بحران پیدا کرنے کی کوشش کی تو ہم نے ان کے مطالبے کے مطابق کمیشن بنا دیا۔ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان بدترین بدعنوان ممالک میں شامل تھا مگر اب وہ شفافیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حزب اختلاف کو ناصرف 2018 کے انتخابات تک انتظار کرنا پڑے گا بلکہ اس کے بعد بھی انتظار کرنا پڑے گا۔

ان کا اشارہ ان انتخابات میں اپنی جماعت کی کامیابی کی طرف تھا۔

XS
SM
MD
LG