وزیرِاعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت پاناما لیکس کے نتیجے میں سامنے آنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر عدالتی کمیشن بنانے کی درخواست کرے گی۔
جمعے کی شب ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ مخالفین کو مطمئن کرنے کے لیے عدالتی کمیشن بنانے پر تیار ہیں اور اگر تحقیقات کے نتیجے میں ان پر کوئی الزام ثابت ہوا تو وہ بلا تاخیر گھر چلے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن جو بھی سفارشات کرے گا، وہ اسے تسلیم کریں گے۔ لیکن انہوں نے سوال کیا کہ اگر کمیشن میں ان پر عائد کیے جانے والے الزامات ثابت نہ ہوئے تو کیا الزام لگانے والے قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں گے؟
اپنے خطاب میں وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ وہ سوچے سمجھے بغیر الزام لگانے والوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو کمیشن کے سامنے پیش کریں۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ انہوں نے قوم سے اپنے گزشتہ خطاب میں پاناما لیکس کے نتیجے میں اپنے خاندان پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتِ عظمیٰ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے کسی مطالبے کے بغیر ہی کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا تھا لیکن اس کے بعد سے بعض حلقے کمیشن کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور مختلف الزامات عائد کرکے ججوں کو بدظن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گو کہ پاناما لیکس میں ان کی ذات پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا لیکن انہوں نے جمہوری وزیرِاعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر خود کو اور اپنے پورے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان پر لگنے والے الزامات وہی ہیں جو اس سے قبل ماضی میں بھی لگائے جاتے رہے ہیں اور جن کی کئی بار تحقیقات کے باوجود بھی کچھ ثابت نہیں کیا جاسکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ گیدڑ بھبکیوں سے نہیں ڈرتے اور اللہ کے بعد صرف پاکستان کے عوام کو جواب دہ ہیں اور ان کے تمام سوالوں کے جواب دینے پر تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی تمام سوالوں کے جواب دیے ہیں اور آئندہ بھی دیں گے کیوں کہ منتخب جمہوری نمائندوں سے سوال کرنا عوام کا حق ہے۔
وزیرِاعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کا خاندان اس وقت سے ٹیکس دے رہے ہیں "جب کچھ لوگوں کو اس لفظ کے ہجے بھی نہیں آتے تھے۔"
وزیرِاعظم نے کہا کہ ان پر سعودی عرب میں فیکٹری لگانے کا الزام لگانے والے پہلے یہ سوال بھی کریں کہ انہیں سعودی عرب جلا وطن کس نے کیا تھا اور ایک منتخب وزیرِ اعظم کو کس قانون کے تحت ہتھکڑیاں لگائی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اخلاقیات کا سبق پڑھانے والے اور جمہوریت کی تعریف بتانے والے یہ تو بتائیں کہ اس وقت ان کی اخلاقیات اور جمہوریت کہاں چلی گئی تھی جب ملک میں ایک جمہوری حکومت کو برطرف کیا گیا اور انہوں نے ایک آمر کے ہاتھوں پر بیعت کرلی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت بدعنوانی کے خاتمے پر یقین رکھتی ہے لیکن ملک میں قانون کی عمل داری، جمہوری اور پارلیمنٹ کی بالادستی سے جنم لیتی ہے۔
وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے رواں ماہ کے آغاز پر پاناما لیکس کے نتیجے میں اپنے خاندان پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا جسے حزبِ اختلاف کی بیشتر جماعتوں نے مسترد کردیا تھا۔
حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ وزیرِاعظم الزامات کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوں جب کہ بعض دیگر جماعتیں الزامات کی تحقیقات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کمیشن سے کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔