فلپائن نے بحیرہ چین کی سمندی حدود کے بارے میں تنازعے سے متعلق بیجنگ سے ایک بار پھر احتجاج کیا ہے۔ فلپائن نے بحیرہ چین میں کم گہرے پانی والے علاقے، جس پر دونوں ممالک اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں، بارہویں مرتبہ احتجاج کیا ہے۔
فلپائن کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے چین کی جانب سے بحیرہ چین میں مختلف جزائر پر مشتمل سلسلے جنہیں سپریٹلیِز کہا جاتا ہے، ایک سرکاری ضلع سانشا بنانے کے خلاف باضابطہ طور پر احتجاج کیا ہے۔ وہ چند جزائر جن کے متعلق چین کا دعویٰ ہے کہ وہ سانشا کی حدود میں آتے ہیں، ان پر فلپائن، ویتنام، ملیشیا ، تائیوان اور برونائی بھی دعویدار ہیں۔
منگل کے روز داخل کئے گئے اپنے احتجاج میں، فلپائن نے سانشا میں ایک فوجی چوکی کی مجوزہ تعمیر کی مخالفت کی ہے، اور اس کے علاوہ، سپریٹلیِز میں ماہی گیری کے لئے استعمال ہونے والے کم از کم تیس بڑی کشتیوں کی موجودگی پر بھی اعتراض کیا ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان، راؤل ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ دفترِ خارجہ، چین کی جانب سے ان کی سمندری حدود میں کی جانے والی ہر خلاف ورزی کا ریکارڈ مرتب کر رہا ہے۔ ہرنینڈز کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں اس دفعہ اشتعال انگیز اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جبکہ ہمارے پاس پہلے ہی سے ڈی او سی یعنی ضابطہ اخلاق سے متعلق اعلان موجود ہے اور لوگ ڈی او سی کے اطلاق کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
دی ڈیکلیریشن آف دی کوڈ آف کانڈکٹ، ایک غیر اطلاقی سمجھوتہ ہے، جس پر بحیرہ چین میں ملکیت کا دعوا رکھنے والے تمام فریق،یعنی چین سمیت جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم کے دس ارکان نے دستخط کئے ہیں۔
اس ماہ کے آغاز پر، علاقائی فورم آسیان کے اجلاس میں، امریکہ سمیت متعدد ممالک نے، ایک ایسے سمجھوتے کی امید ظاہر کی تھی جس کو قوانین کے تمام فریق پابند ہوں۔ امریکی دفترِ خارجہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ، چین نے اس سال ستمبر میں اس بارے میں بات چیت شروع کرنے پر رضامندی کا اشارہ دیا ہے۔
چین کا موقف ہے کہ وہ ملکیت کے داعی ممالک سے، آسیان جیسے کثیر الملکی فورم کی بجائے ایک ایک کر کے بات چیت کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ تاہم چند ممالک جن میں فلپائن بھی شامل ہے، اپنے تنازعات کو عالمی ذرائع سے سامنے لا رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے سمندری قوانین سے متعلق معاہدے کے تحت اس کا حل چاہتے ہیں ۔
ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ منیلا کے داخل کئے گئے مختلف احتجاج، سے فلپائن کی آواز سنی جائے گی۔ ان کا کہناہے کہ یہ احتجاج بہت اہم ہیں، حالانکہ ایک دم اِن سے کوئی فوائد حاصل نہیں ہونگے، لیکن ان سے ہم دنیا کو بتا سکیں گے کہ ہم اپنی علاقائی حدود پر دوسروں کی جانب سے کی جانےوالی کاروائیوں کو قبول نہیں کرتے۔
تاہم منگل کے روز منیلا میں داخل کئے گئے احتجاج کا کوئی فوری جواب موصول نہیں ہوا۔
فلپائن کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے چین کی جانب سے بحیرہ چین میں مختلف جزائر پر مشتمل سلسلے جنہیں سپریٹلیِز کہا جاتا ہے، ایک سرکاری ضلع سانشا بنانے کے خلاف باضابطہ طور پر احتجاج کیا ہے۔ وہ چند جزائر جن کے متعلق چین کا دعویٰ ہے کہ وہ سانشا کی حدود میں آتے ہیں، ان پر فلپائن، ویتنام، ملیشیا ، تائیوان اور برونائی بھی دعویدار ہیں۔
منگل کے روز داخل کئے گئے اپنے احتجاج میں، فلپائن نے سانشا میں ایک فوجی چوکی کی مجوزہ تعمیر کی مخالفت کی ہے، اور اس کے علاوہ، سپریٹلیِز میں ماہی گیری کے لئے استعمال ہونے والے کم از کم تیس بڑی کشتیوں کی موجودگی پر بھی اعتراض کیا ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان، راؤل ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ دفترِ خارجہ، چین کی جانب سے ان کی سمندری حدود میں کی جانے والی ہر خلاف ورزی کا ریکارڈ مرتب کر رہا ہے۔ ہرنینڈز کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں اس دفعہ اشتعال انگیز اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جبکہ ہمارے پاس پہلے ہی سے ڈی او سی یعنی ضابطہ اخلاق سے متعلق اعلان موجود ہے اور لوگ ڈی او سی کے اطلاق کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
دی ڈیکلیریشن آف دی کوڈ آف کانڈکٹ، ایک غیر اطلاقی سمجھوتہ ہے، جس پر بحیرہ چین میں ملکیت کا دعوا رکھنے والے تمام فریق،یعنی چین سمیت جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم کے دس ارکان نے دستخط کئے ہیں۔
اس ماہ کے آغاز پر، علاقائی فورم آسیان کے اجلاس میں، امریکہ سمیت متعدد ممالک نے، ایک ایسے سمجھوتے کی امید ظاہر کی تھی جس کو قوانین کے تمام فریق پابند ہوں۔ امریکی دفترِ خارجہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ، چین نے اس سال ستمبر میں اس بارے میں بات چیت شروع کرنے پر رضامندی کا اشارہ دیا ہے۔
چین کا موقف ہے کہ وہ ملکیت کے داعی ممالک سے، آسیان جیسے کثیر الملکی فورم کی بجائے ایک ایک کر کے بات چیت کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ تاہم چند ممالک جن میں فلپائن بھی شامل ہے، اپنے تنازعات کو عالمی ذرائع سے سامنے لا رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے سمندری قوانین سے متعلق معاہدے کے تحت اس کا حل چاہتے ہیں ۔
ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ منیلا کے داخل کئے گئے مختلف احتجاج، سے فلپائن کی آواز سنی جائے گی۔ ان کا کہناہے کہ یہ احتجاج بہت اہم ہیں، حالانکہ ایک دم اِن سے کوئی فوائد حاصل نہیں ہونگے، لیکن ان سے ہم دنیا کو بتا سکیں گے کہ ہم اپنی علاقائی حدود پر دوسروں کی جانب سے کی جانےوالی کاروائیوں کو قبول نہیں کرتے۔
تاہم منگل کے روز منیلا میں داخل کئے گئے احتجاج کا کوئی فوری جواب موصول نہیں ہوا۔