پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے سربراہ اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسین 'کین سینو' کے تیسرے مرحلے کی طبی آزمائش شروع کر دی گئی ہے۔
اسد عمر کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسین چین کی ایک کمپنی نے تیار کی ہے۔ آزمائشی مرحلے میں 8 سے 10 ہزار پاکستانی شریک ہوں گے۔ جب کہ ٹیسٹ کے ابتدائی نتائج 4 سے 6 ماہ میں متوقع ہیں۔
وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے توقع ظاہر کی ہے کہ ویکسین کے کلینکل ٹرائلز سے ملک میں دیگر بیماروں کے لیے ویکسین تیار کرنے کی گنجائش میں اضافہ ہو گا۔
اسد عمر کا کہنا ہے کہ ویکسین کے ٹرائلز میں 7 ممالک کے 40 ہزار افراد رضاکارانہ طور پر شریک ہو رہے ہیں۔
جب کہ ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں کہ پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں کرونا وائرس کی ویکیسن کے کلینکل ٹرائلز کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی آزمائش ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں ویکسین کی تیاری سے طبی نظام میں بہتری آنے کے ساتھ ساتھ ہماری صلاحتیوں میں اضافہ ہو گا۔
قومی ادارۂ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام کا کہنا ہے کہ اس وقت ساری دنیا کی نگاہیں ویکسین پر لگی ہوئی ہیں۔ کم و بیش سات ویکیسنز اپنی آزمائش کے تیسرے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔
میجر جنرل عامر اکرام نے کہا کہ ہم اس مرحلے میں اپنے 8 سے 10 ہزار رضاکار شامل کریں گے جن پر ویکسین کے اثرات کا جائزہ لینے کا عمل آئندہ 12 ماہ تک جاری رہے گا۔ لیکن امکان ہے کہ اگلے 3 ماہ میں ہمیں ابتدائی نتائج موصول ہو جائیں گے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں کہ پاکستان ایک عرصے سے کتے کے کاٹنے کی ویکسین بھارت اور چین سمیت دیگر ممالک سے منگوا رہا تھا۔ اب کرونا ویکیسن کے تیاری کے بعد امکان ہے کہ ہر قسم کی ویکسین پاکستان میں تیار ہو سکے گی۔
ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ ویکسین کی تیاری حکومت کی بڑی کامیابی شمار ہو گی۔ تاہم اس سے بھی بڑی کامیابی یہ ہو گی کہ ویکسین کم قیمت پر مارکیٹ میں دستیاب ہو اور سرکاری اسپتالوں میں غریب لوگوں کو مفت فراہم کی جائے۔
پاکستان نے گزشتہ ماہ کرونا ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کی منظوری دی تھی۔ کرونا کی ویکسین 'کین سینو' کی آزمائش کا پہلا اور دوسرا مرحلہ چین میں مکمل ہوا تھا جس کے بعد اب پاکستان میں اس کی آزمائش جاری ہے۔