فائزر نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین پانچ سے 11 سال کی عمر کے بچوں کے لیے محفوظ ہے۔
ادویات ساز کمپنی کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کیے جانے والے تجربات سے ظاہر ہوا ہے کہ بچوں کے لیے کم ڈوز کی ویکسین کا استعمال محفوظ اور مؤثر ہے اور اس سے اینٹی باڈٰیز کا ٹھوس ردعمل ظاہر ہوا ہے۔
فائزر کا کہنا ہے کہ اس کا ارادہ کم عمر گروپ کے لیے استعمال کی جانے والی ویکسین کےاستعمال کی جلد اجازت حاصل کرنا ہے۔
ویکسین سے متعلق دوسری بڑی خبر یہ ہے کہ امریکہ کی ایک ریاست کے گورنر نے، جہاں کوویڈ-19 کے باعث آبادی کے لحاظ سے اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے، کہا ہے کہ وہ صدر جوبائیڈن کی جانب سے تمام وفاقی کارکنوں کے لیے ویکسین کی لازمی شرط کو ایک 'حملے' کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ایسا احتیاطی اقدام نہیں ہے جس کا مقصد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔
مسی سیپی کے گورنر ٹیٹ ریوز نے سی این این چینل کے ایک پروگرام 'اسٹیٹ آف دی یونین' میں اتوار کے روز کہا کہ صدر کی طرف سے لازمی ویکسین لگوانے کا حکم نامہ ان محنتی امریکیوں اور مسی سیپی کے محنتی کارکنوں پر حملہ ہے جو اپنے ہاتھ میں ملازمت رکھنے اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرنے کی اہلیت کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔
دی نیو یارک ٹائمز کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، مسی سیپی میں کرونا وائرس سے اموات کی شرح ہر ایک لاکھ افراد میں 306 ہے۔
بائیڈن نے 100 یا اس سے زیادہ کارکن رکھنے والی کمپنیوں کے لیے لازمی ویکسین کے اپنے حالیہ مطالبے کا دفاع کیا ہے، جس میں کہا ہے کہ ویکسین نہ لینے کی صورت میں کارکن ہر ہفتے نیگیٹو کرونا ٹیسٹ کا ثبوت پیش کریں۔
برطانیہ بھر کے اسکولوں میں، 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کی مہم پیر کے روز سے شروع کر دی گئی ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق بھارت کے شہر کلکتہ میں کچھ پرائیویٹ اسپتالوں نے بچوں میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے بعد ان کے علاج معالجے اور اس سلسلے میں عملے کی تربیت کی سہولتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق بھارت نے اگلے مہینے سے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کی برآمد بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت نے ملک میں کرونا وائرس کی وبا میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر ملکی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بیرونی ملکوں کو ویکسین کی ترسیل روک دی تھی۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے لیے امریکی مراکز کی جانب سے شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والے تقریباً ہر تین میں سے ایک شخص میں دو ماہ بعد بھی وبا کی علامتیں موجود پائی گئیں۔
لانگ بیچ، کیلی فورنیا میں کی جانے والی اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کووڈ-19 کا پازیٹو ٹیسٹ آنے والوں میں سے ایک تہائی نے بتایا کہ مثبت ٹیسٹ کے چار یا اس سے بھی زیادہ ہفتوں بعد تک بھی کورونا وائرس کی کم از کم ایک علامت موجود رہیں۔
سی ڈی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کیا کہ یہ شرح خواتین، سیاہ فام افراد، 40 سال سے زیادہ عمر کے افراد اور ان لوگوں میں زیادہ تھی جن میں پہلے سے کوئی مرض موجود تھا۔ سی ڈی سی نے جن لوگوں میں وبا کی علامتیں چار ہفتے یا اس سے زیادہ مدت تک موجود رہتی ہیں، اسے لانگ کوویڈ کا نام دیا ہے۔
لانگ بیچ ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز نے اس مطالعاتی جائزے میں یکم اپریل سے 10 دسمبر 2020 کے دوران 366 لوگوں سے بات کی، جن کی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ تھی۔ یہ وہ افراد تھے جن کے کرونا ٹیسٹ مثبت آئے تھے۔
جانز ہاپکنز کرونا وائرس ریسورس سینٹر کے مطابق، امریکہ میں کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں کرونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز ہیں۔جن کی تعداد سوا چار کروڑ کے قریب ہے۔
سنگاپور میں اتوار کو وائرس کے ایک ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ ہوئے، جو اپریل 2020 کے بعد سے ملک کے لیے سب سے زیادہ شرح ہے، جب کہ اس ملک کی 80 فیصد آبادی کو وائرس کے خلاف مکمل طور پر ویکسین دی جا چکی ہے۔
جانز ہاپکنز کرونا وائرس ریسورس سینٹر کے مطابق، دنیا بھر میں اب تک کوویڈ-19 کے 22 کروڑ 80 لاکھ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جب کہ اموات کی تعداد 47 لاکھ کے قریب ہے۔
دنیا میں اب تک کرونا وائرس سے بچاؤ کی 6 ارب خوراکیں دی جا چکی ہیں۔
حال ہی میں، واشنگٹن ڈی سی میں سمتھ سونین نیشنل چڑیا گھر نے انکشاف کیا ہے کہ چڑیا گھر میں کچھ شیروں اور چیتوں میں کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ چڑیا گھر حکام کے مطابق چھ شیروں اور تین چیتوں میں بھوک کی کمی، سستی، کھانسی اور چھینکوں کی علامات ظاہر ہوئی تھیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ جانوروں اور انسانی عملے کی صحت اور تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)