رسائی کے لنکس

فائزر کی ویکسین بچوں کے لیے مؤثر ہونے کا دعویٰ


22 دسمبر،2020 کی اس تصویر میں ایک رضاکار بچہ فائزر کی کرونا وائرس ویکسین کی آزمائشی خوراک لے رہا ہے۔ (اے پی)
22 دسمبر،2020 کی اس تصویر میں ایک رضاکار بچہ فائزر کی کرونا وائرس ویکسین کی آزمائشی خوراک لے رہا ہے۔ (اے پی)

امریکی دواساز کمپنی فائزر نے بدھ کے روز کہا ہے کہ اس کی کرونا ویکسین 12 سے 15 برس کے بچوں کے لیے موثر ہے۔ اس اعلان سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ امریکہ میں اس موسم خزاں میں بچوں کے سکول شروع ہونے سے پہلے انہیں ویکسین کی خوراکیں دی جا سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں ابھی تک جتنی کرونا ویکسین دی جا رہی ہیں، وہ 16 برس سے زائد عمر کے افراد کے لیے ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ویکسین دینا عالمی وبا کو روکنے کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوگا۔

فائزر نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ کمپنی نے 12 برس سے 15 برس کے 2260 رضاکاروں پر تحقیق کے دوران جن بچوں کو فائزر کی ویکسین دی، ان میں ابتدائی نتائج کے دوران کرونا وائرس کے کوئی بھی کیس دیکھنے میں نہیں آئے.

یاد رہے کہ یہ ایک چھوٹے پیمانے پر کی گئی تحقیق ہے جسے ابھی تک کہیں بھی غیر جانبدارانہ طور پر جانچنے کے بعد شائع نہیں کیا گیا۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ویکسین کی خوراک کے بعد ان بچوں میں بڑے پیمانے پر کووڈ 19 سے لڑنے والی اینٹی باڈیزپیدا ہوئی ہیں۔ ویکسین لینے کے بعد ان بچوں میں اینٹی باڈیز کا پیمانہ بڑی عمر کے افراد سے کچھ زیادہ تھا۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ ان بچوں میں بھی بڑی عمر کے افراد کی طرح ہی ویکسین کے مضر اثرات ظاہر ہوئے۔ جو اثرات ظاہر ہوئے ان میں عموماً درد، بخار، جسم میں ٹھنڈا گرم لگنا اور تھکن کی شکایات تھیں۔ یہ کیفیت خصوصاً دوسری خوراک کے بعد دیکھنے میں آئی۔

اے پی کے مطابق کمپنی ان رضاکاروں پر مزید دو سال تک تحقیق کرے گی تاکہ لمبے عرصے تک حفاظت سے متعلق مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔

دوسری طرف خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ معلوم ہوا ہے کہ کرونا وائرس کی بیماری کے بعد جسم میں بننے والے ٹی سیل نامی خلیے کرونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف لڑنے میں معاون ہوتے ہیں۔

اس سے پہلے کئی دیگر تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کووڈ 19 کی نئی اقسام میں سے چند، ویکسین اور اینٹی باڈیز کی جانب سے فراہم کردہ مدافعتی نظام کو توڑنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ جسم کا مدافعتی نظام کئی عناصر پر مبنی ہے جن میں ٹی سیل اور اینٹی باڈی بھی شامل ہیں۔

امریکہ میں الرجی اور متعدی امراض پر کام کرنے والے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشئیس ڈیزیزز (این آئی اے آئی ڈی) کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ٹی سیل کرونا وائرس کی نئی اقسام سے لڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ادارے سے تعلق رکھنے والے اینڈریو ریڈ نے بتایا کہ ’’ہمارے ڈیٹا اور دوسرے گروپوں کے نتائج سے یہ پتہ لگتا ہے کہ جو فرد کرونا وائرس کی ابتدائی اقسام سے متاثر ہو چکا ہو، اس کے جسم میں موجود ٹی سیل برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام کو مکمل طور پر پہچان لیتے ہیں۔‘‘

محققین نے 30 افراد کے خون کا معائنہ کیا جو کرونا وائرس کی ابتدائی اقسام سے متاثر ہونے کے بعد صحت مند ہو چکے تھے۔

ان نمونوں میں انہوں نے ایک خاص قسم کے ٹی سیل کی شناخت کی اور انہوں نے یہ دیکھا کہ یہ جنوبی افریقہ، برطانیہ اور برازیل میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف کیسے ردعمل دیتا ہے۔

تجربات کے بعد یہ نتائج سامنے آئے کہ ٹی سیل کا ردعمل بہت حد تک قائم رہا اور اس نے وائرس میں ہونے والے تغیرات کو پہچان لیا۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تحقیقات جاری رہنی چاہئیں اور وائرس کی اُن اقسام پر بھی تحقیق جاری رہنی چاہئے، جنہیں اینٹی باڈی اور ٹی سیل پہچان نہیں پاتے۔

XS
SM
MD
LG