کرونا بحران نے عالمی معیشت کو گزشتہ 90 سال کی بد ترین کساد بازاری میں دھکیل دیا ہے اور معاشروں کے غیر محفوظ طبقے اور کم ترقی یافتہ ممالک کے عوام کے بری طرح متاثر ہونے سے یکساں ترقی کا خواب مزید دھندلا پڑ گیا ہے۔
ساٹھ عالمی تنظیموں کی تیار کردہ تازہ ترین رپورٹ 'سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ رپورٹ 2021' میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر اقتصادی سرگرمیوں کا رک جانا اور اس بحران سے مقابلے کے لیے دنیا کی امیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کی صلاحیت میں پہلے سے موجود فرق ، یہ دو ایسے عوامل ہیں جنہوں نے اقتصادی امکانات کو مزید سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔
رپورٹ مرتب کرنے والی ٹاسک فورس نے اقوام متحدہ کو بتایا ہے کہ عالمی وبا سے تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ملازمتوں کے مواقع غائب ہو گئے ہیں جب کہ 12 کروڑ سے زائد افراد انتہائی غربت کے چنگل میں جا پھنسے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اقوامِ عالم نے اب تک کل 160 کھرب ڈالرز کے سٹیمولس یعنی امداد پروگراموں کا اعلان کیا ہے لیکن اس رقم کا محض 20 فی صد ترقی پزیر ممالک میں خرچ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کووڈ نائنٹین کے خلاف کوششوں میں عدم مساوات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں برس جنوری میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کا آغاز کرنے والے 38 ممالک میں صرف نو ایسے ممالک تھے جو ترقی یافتہ ممالک کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔
عالمی وبا پھوٹنے سے پہلے ہی دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک قرضوں کے بوجھ تلے پس رہے تھے۔ رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ بحران ترقی کے اہداف کے حصول کو دس برس پیچھے دھکیل سکتا ہے۔
ٹاسک فورس نے اقتصادی جھٹکوں سے نمٹنے کے لیے سفارشات میں کہا ہے کہ اقتصادی اقدامات اٹھانے کے علاوہ ممالک ویکسین کی فراہمی کی غیر منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں۔
ٹاسک فورس نے ایک اور سفارش میں کہا ہے کہ ترقی پزیر ممالک پر قرضوں کا دباؤ کم کرنے کے علاوہ ان کے لیے مزید رقوم کا بندوبست کیا جائے تاکہ ترقی کے عمل کو آگے لے جایا جاسکے۔