تارکینِ وطن محنت کش اور ماہر افراد اپنے میزبان اور آبائی ملکوں کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار کرتے ہیں اور گزشتہ عشروں میں ان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو تسلیم بھی کیا گیا ہے۔
رواں سال کے شروع سے پھوٹنے والی کرونا کی عالمی وبا نے جہاں لوگوں کی بہتر مستقبل کی جستجو کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے عمل کو روک دیا وہاں بہت سے تارکینِ وطن کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اس ہفتے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی وبا کے باعث دنیا کے کئی ممالک میں روزگار کے مواقع کم ہونے کا سب سے گہرا اثر تارکینِ وطن ملازمین پر ہوا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے سینیئر اہلکار گیری رین ہارٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ غیر رسمی معاشی شعبوں میں کام کرتے ہیں جہاں بیمار ہونے یا بے روزگار ہونے کی صورت میں اُنہیں باقاعدہ ملازمین کی طرز کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسا خاص طور پر ترقی پزیر ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ وہاں بہت سے محنت کش سال کے مخصوص حصوں میں موسمی کارکنان کے طور پر کام کرتے ہیں۔
کرونا بحران میں بہت سے تارکینِ وطن اس موزی مرض کا شکار ہوئے اور بہت سے باقی لوگوں کو ان کے آبائی وطن واپس بھیج دیا گیا۔
گیری رین ہارٹ نے کہا کہ ایسا خاص طور پر جرمن، سنگاپور اور متحدہ عرب امارات میں گوشت کے کی کاروبار سے وابسطہ ملازمین کے ساتھ ہوا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کے تیس ممالک اپنی قومی پیداوار کی مجموعی رقم کا دس فی صد سے زائد تارکینِ وطن کی بھیجی گئی ترسیلاتِ زر سے حاصل کرتے ہیں۔
عالمی بینک کے مطابق تارکینِ وطن کی بھیجی گئی ترسیلاتِ زر میں اس سال 20 فی صد کمی آئے گی۔ اس کمی کے سبب بہت سے خاندان متاثر ہوں گے اور اس طرح متاثرہ ممالک کی اقتصادی صورتِ حال خراب ہو گی۔
آئی ایل او کے مطابق تارکینِ وطن کے لیے ایک اور منفی پہلو کمپنیوں اور دفاتر کا وبا کے دوران ٹیکنالوجی اور آن لائن کاروبار کے رجحانات پر بڑھتا ہوا انحصار ہے۔
اکاونٹنگ کمپنی 'ای وائے' کے 25 ملکوں میں کیے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے گیری رین ہارٹ کہتے ہیں کہ 41 فی صد کاروباری رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ مشینوں کے استعمال میں سرمایہ کاری کو تیز کر رہے ہیں تاکہ کووڈ نائنٹین کے خاتمے کے بعد کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیاری کی جا سکے۔
آئی ایل او کے اہلکار کے مطابق مصنوعی ذہانت پر انحصار کا بڑھتا ہوا رجحان تارکینِ وطن ورکرز کے لیے ایک بری خبر ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ خطے میں کپڑے کے کارخانوں میں اندرونی نقل مکانی کرنے والے کارکن یا پھر تھائی لینڈ کی کیکڑے کی صنعت سے وابستہ رنگون کے لوگ بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر تارکینِ وطن پر نظر ڈالی جائے تو جرمن، برطانیہ اور امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک میں طب کے شعبے میں بہت سے تارکینِ وطن ڈاکٹروں اور نرسوں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں اور وہ اس وبا کے خلاف ہراول دستے کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔
وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدہ صورتِ حال کے باوجود ایک روشن پہلو یہ ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں تارکینِ وطن کے متعلق خیالات میں مثبت تبدیلی برقرار ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ میں 1996 میں 63 فی صد تارکینِ وطن ملک پر بوجھ سمجھتے تھے اور محض 31 فی صد کہتے تھے کہ تارکینِ وطن ملک کو مضبوط کرتے تھے۔ اور اب ایک سروے کے مطابق 25 برس بعد یہ تناسب الٹ گیا ہے۔
ہر ایک شہری کے مقابلے میں دو امریکی امیگریشن کے حق میں ہیں۔ اسی طرح برطانیہ، فرانس، اسپین، کینیڈا، سویڈن، آسٹریلیا اور جرمنی میں یہ تاثر زیادہ ہے کہ تارکین وطن ملکوں کو مضبوط کرتے ہیں۔
ان ملے جلے رجحانات کی روشنی میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مستقبل میں جہاں کچھ تارکینِ وطن کے لیے مشکلات ہوں گی وہاں کارکنان کثیرالاقوام ہوں گے اور کام کرنے کی جگہوں پر بہتری کے امکانات بھی ہوں گے۔