رسائی کے لنکس

پشاور میں پانچ سالہ بچی کی گمشدگی اور ہلاکت کے خلاف مظاہرہ


پشاور میں پانچ سالہ بچی کی گمشدگی اور ہلاکت کے خلاف سول سوسائٹی کا مظاہرہ
پشاور میں پانچ سالہ بچی کی گمشدگی اور ہلاکت کے خلاف سول سوسائٹی کا مظاہرہ

خیبرپختونخوا کے دارلحکومت پشاور پریس کلب کے سامنے سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے مردان میں پانچ سالہ حسینہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔

گزشتہ روز مردان میں ایک دن پہلے لاپتا ہونے والی پانچ سالہ بچی کی لاش ملی تھی۔

پولیس تھانہ تخت بھائی کے مطابق نواحی گاؤں فتو کلی میں مفتی حبیب الرحمان کی پانچ سالہ بچی حسینہ کل شام گھر سے نکل کر غائب ہوگئی تھی جس کی گمشدگی کی رپورٹ تھانہ تخت بھائی میں درج کی گئی تھی اور پولیس اوربچی کے ورثاء اسے تلاش کر رہے تھے۔

اگلے روز گھر سے کچھ فاصلے پر کھیتوں میں اس کی لاش پڑی ہوئی ملی۔ پولیس کے مطابق بچی کے ہاتھ پیر باندھنے گئے تھے اور اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کے لئے مردان میڈیکل کمپلیکس منتقل کرلی جہاں لاش سے سمپلز لے کر فارنزک لیب ارسال کردئیے گئے جبکہ تھانہ تخت بھائی میں نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

ڈی پی او واحد محمود نے واقعے کاسراغ لگانے اور ملزمان کی فوری گرفتاری کے لئے تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس نے جائے وقوع کو محفوظ کرکے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

مقتولہ بچی کا باپ عالم دین ہے اور گاؤں میں بچیوں کے دینی مدرسہ میں پڑھاتا ہے۔

سول سوسائٹی کے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے سماجی و فلاحی اہل کاروں نے پشاور پریس کلب کے سامنے جمع ہو کر حکومت سے بچوں کی تحفظ کے لئے مضبوط قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کے حق میں نعرے لگائے۔ انہوں نے بینرز اور پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر بچوں کے حقوق اور حکومت سے مطالبے درج تھے۔

احتجاج میں شریک بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیم "د حوا لور" کے رکن شوانا شاہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بنائے گئے چائلڈ یونٹ کو جلد از جلد فعال کیا جائے اور بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرمان کو حقیقی معنوں میں سزا دی جائے۔

پشاور میں پانچ سالہ بچی کی گمشدگی اور ہلاکت کے خلاف مظاہرہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:02 0:00

چائلڈ رائٹ ایکٹیوسٹ خورشید بانو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آج کے دور میں بچوں کے لئے سیکس ایجوکیشن انتہائی اہم ہوگئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سب سے پہلے یہ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے اور پھر اساتذہ کی کہ وہ بچوں کو سیکس ایجوکیشن کے بارے میں بتائے۔

خورشید بانو نے حکومت پر سوال اٹھایا کہ اگر مدرسوں میں بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے تو سرکاری سکول میں ایسا بچوں کو کیوں نہیں پڑھایا جاتا ہے؟
سوشل ایکٹیوسٹ، سبحان علی نے بتایا کہ ہمارے ملک میں ہر چیز کے لئے قانون تو موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مسائل بڑھ جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے عوام میں شعور نہیں ہے جس کے باعث اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG