خیبر پختونخوا حکومت نے وزیرِ اعظم عمران خان کو پشاور بس منصوبہ ایک ماہ میں مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وزیرِ اعظم کو یہ یقین دہانی اسلام آباد میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کرائی گئی ہے۔ تاہم پشاور کے سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ چونکہ اس منصوبے کا بیشتر حصہ نامکمل ہے اس لیے ایک ماہ میں بی آر ٹی منصوبے کی تکمیل ناممکن نظر آتی ہے۔
بس منصوبے کا افتتاح سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے اکتوبر 2017 میں کیا تھا۔
افتتاح کرتے وقت پرویز خٹک اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں نے اس منصوبے کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ منصوبہ تاحال زیرِ تعمیر ہے۔
پشاور کے سیاسی، سماجی اور کاروباری حلقوں نے ابتدا میں ہی اس منصوبے کو ناصرف غیر ضروری قرار دیا تھا بلکہ دوران تعمیر اس کے تجارتی و کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثرات کی بھی نشاندہی کی تھی۔
اس سلسلے میں شہریوں نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست بھی دائر کی تھی جس پر عدالت نے پچھلے سال وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن خیبرپختونخوا حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے سے روک دیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ میں بی آر ٹی منصوبے کے خلاف درخواست دائر کرنے والے سابق صوبائی وزیر اور جمعیت العلمائے اسلام کے رہنما مولانا امان اللہ حقانی نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں وزیرِ اعظم عمران خان کو کرائی جانے والی یقین دہانی پر اپنا ردِ عمل میں کہا ہے کہ اس قسم کی کئی یقین دہانیاں پہلے بھی کرائی جاچکی ہیں لیکن بات صرف یہیں تک محدود رہی۔
مولانا امان اللہ حقانی کا کہنا ہے کہ ایک ماہ بعد بھی صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ منصوبے کے کئی اسٹیشن پر کام ادھورا ہے جب کہ دیگر تعمیراتی کام بھی اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
اٹھائیس کلو میٹر طویل اس منصوبے کے حوالے سے اکھاڑ پچھاڑ کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں تاہم پشاور ڈویلیمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سید ظفر علی کا کہنا ہے کہ تقریباً 99 اعشاریہ 99 فی صد کام مکمل ہے۔ صرف تزئین و آرائش کا کام باقی ہے جو بہت جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
اس منصوبے سے جہاں شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے وہیں اس سے وابستہ مزدور اور چھوٹے ٹھیکیدار، بڑے ٹھیکیداروں کی جانب سے ادائیگی نہ کیے جانے کا شکوہ کرتے ہیں۔
منصوبے پر 46 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو بعد میں 40 ارب تک جا پہنچا جب کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس کی لاگت 100 ارب روپے ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ منصوبے کے لیے بسوں کی خریداری جولائی 2018 میں ہی مکمل کرلی گئی تھی ۔ اس وقت صوبے میں پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اس منصوبے میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔