رسائی کے لنکس

پشاور میں خودکش حملہ، ہارون بلور سمیت 14 افراد ہلاک


سیکیورٹی اہل کار دھماکے کے مقام سے شواہد اکھٹے کر رہے ہیں۔ 11 جولائی 2018
سیکیورٹی اہل کار دھماکے کے مقام سے شواہد اکھٹے کر رہے ہیں۔ 11 جولائی 2018

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہارون بلور خودکش حملے کا مرکزی ہدف تھے۔  دھماکہ اس وقت ہوا جب ہارون بلور لوگوں سے ملاقات کے لیے وہاں پہنچے۔

پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی ایک انتخابی میٹنگ میں ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں حلقہ پی کے 78 کے امیدوار بیرسٹر ہارون بلور سمیت 14 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔

یہ حملہ منگل کی رات یکہ توت کے علاقے میں ہوا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہارون بلور خودکش حملے کا مرکزی ہدف تھے۔ دھماکہ اس وقت ہوا جب ہارون بلور لوگوں سے ملاقات کے لیے وہاں پہنچے۔ حکام کے مطابق ہلاک وزخمی ہونے والوں میں زیادہ تر عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن تھے جو انتخابی میٹنگ کے سلسلے میں وہاں جمع ہوئے تھے۔

حاجی غلام احمد بلور، جو قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ، کارنر میٹنگ میں شرکت کے لیے آ رہے تھے اور حملے کا نشانہ بننے والے لوگوں سے خطاب کرنے والے تھے۔

خودکش حملے کے فوراً بعد اے این پی کے کارکنوں اور راہنماؤں کی ایک بڑی تعداد لیڈی ریڈنگ اسپتال اور بلور ہاؤس پہنچ گئی، جن میں میاں افتخار حسین، لطیف آفریدی، حاجی ہدایت اللہ، سید عقیل شاہ اور حاجی عمر نمایاں ہیں ۔

پارٹی کے بعض کارکنوں نے احتجاجی نعرے لگائے اور سڑکیں بلاک کیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سرگرم کارکنوں اور رضاکاروں نے نعشوں اور زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا، لیکن ہارون بلور اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔

دانیال بلور نے، جو ہارون بلور کے صاحب زادے ہیں اور اپنے والد اور دادا کی انتخابی مہم میں حصہ لیتے رہے ہیں، اس موقع پر بلور ہاؤس میں سینکڑوں کارکنوں سے خطاب میں کہا کہ ان کی پارٹی اور خاندان اپنے اس عزم پر قائم ہے کہ وہ امن کے لیے کام کرتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے دادابشیر احمد بلور اور اپنے والد ہارون بلور کے مشن کو پارٹی کی پالیسیوں کے مطابق آگے بڑھانے کی کوششیں جاری رکھوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج میرے والد حملے کا نشانہ بن گئے لیکن میں اکیلا نہیں ہوں اے این پی کے لیڈر اور ورکر، میرے بزرگ اور بھائیوں کی حیثیت میں میرے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔

بیرسٹر ہارون بلور، بشیر احمد بلور کے بڑے بیٹے تھے۔ بشیر بلور بھی 2012 میں پشاور شہر میں ایک پارٹی میٹنگ میں تقریر کے دورن دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ وہ 2008 سے 2013 تک اے این پی اور پی پی پی کی مخلوط حکومت میں سینیر وزیر تھے۔

ابس سے قبل میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 12 افراد ہلاک جب کہ 34 کے لگ بھگ افراد زخمی ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور کارنر میٹنگ میں پہلے سے موجود تھا۔ اس نے دھماکہ ایک ایسے وقت پر کیا جب بلور کی آمد کے پر آتش بازی کی جا رہی تھی۔

سیاسی راہنماؤں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی جانب سے حملے کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ بلاول بھٹو نے اسے جمہوریت پسندوں پر حملہ ایک سازش ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اختلافات چاہے کتنے ہی شدید کیوں نہ ہوں، کسی کی جان نہیں لینی چاہیے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے بیان میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گرد جمہورت کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سی سی پی او پشاور قاضی جمیل نے کہا ہے کہ حملے میں 8 کلو دھماکہ خیز بارودی مواد استعمال کیا گیا۔

پاکستان کے اس شمال مغربی صوبے میں اے این پی ایک عرصے سے عسکریت پسند گروہوں کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ طالبان عسکریت پسند ، فوجی آپریشن سے پہلے زیادہ تر خیبر پختون خوا کے مختلف حصوں میں سرگرم تھے اور یہاں سے وہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی حملے کرتے تھے۔ تاہم فوج کی جانب سے بڑے آپریشن کے بعد زیادہ تر طالبان سرحد پار أفغانستان میں روپوش ہو چکے ہیں اور کبھی کبھار سرحد کے قریب واقع علاقوں پر حملے کرتے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں تختی خیل کے علاقے میں متحدہ مجلس عمل کی ایک ریلی پر حملے میں سات افراد زخمی ہوگئے تھے جن میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار بھی شامل تھے۔

XS
SM
MD
LG