رسائی کے لنکس

کیا اب کوئی فارسی نہیں پڑھنا چاہتا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

فارسی زبان کسی زمانے میں خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں بطور مضمون پڑھائی جاتی تھی۔ اس کی تدریس کے لیے باقاعدہ استاد ہوتے تھے۔ سعدی، رومی اور خیام کے افکار سے مشہور یہ زبان صوبے میں زبوں حالی کا شکار ہو کر تعلیمی اداروں سے رخصت ہو رہی ہے۔

خیبر پختونخوا کی پشاور یونیورسٹی صوبے کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں اب تک فارسی کی تدریس کا شعبہ قائم ہے، لیکن یہاں بھی گذشتہ ایک دہائی میں طلبہ کی تعداد میں کمی آ چکی ہے۔

اس تنزلی کے کئی محرکات اور وجوہات ہیں۔ شعبہ سے چند سال کے دوران سینئر اساتذہ ریٹائر ہو گئے ہیں، جبکہ ان کی جگہ نئی بھرتیاں نہیں کی گئیں۔

اس وقت شعبہ میں ایک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یوسف حسین رہ گئے ہيں جو تدریس کے ساتھ ساتھ شعبے کے انتظامی فرائض بھی دیکھ رہے ہيں۔

اس وقت شعبے میں ایم اے کے چار طالب علم، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے آٹھ محقق، جبکہ مختصر دورانیہ کے سرٹیفیکٹ کورسز میں 30 طلبہ رجسٹر ہیں۔ تعلیمی سال 19-2018 میں ایم اے اور ایم فل میں طلبہ کو داخلہ نہیں ديا گيا۔

اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یوسف حسین
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یوسف حسین

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر یوسف حسین کا کہنا تھا کہ ماسٹرز لیول پر طلبہ کا رجحان کم ہو گیا ہے، جبکہ شارٹ کورسز میں شعبے کو زیادہ پذیرائی ملی ہے۔

ڈاکٹر یوسف حسین نے بتایا کہ اس کے مختلف عوامل ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ فارسی زبان محض ایران کی زبان نہیں۔ پاکستان کی مغربی سرحد سے لے کر قفقاز اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک پورے خطے میں فارسی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

بقول ان کے، ایران، افغانستان، تاجکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ثقافتی، سیاسی اور معاشی روابط استوار کرنا ہو تو فارسی زبان رابطے کی زبان ہے۔ اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کو اگر وسعت دی جائے تو اپنے مغربی اور شمال مغربی پڑوسیوں کے ساتھ روابط بڑھانے کے لیے فارسی زبان کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ فارسی زبان برصغیر میں طویل عرصے تک سرکاری، علمی، مذہبی اور تہذیبی زبان کی حیثیت سے رائج رہی۔ ڈاکٹر یوسف حسین کے مطابق، فارسی زبان برصغیر کی زبان بھی ہے۔ فارسی محض ایک بول چال نہیں بلکہ یہ ایک ثقافت اور تہذیب کی زبان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم ممالک میں عربی کے بعد فارسی ہی میں ہماری مذہبی، ثقافتی، اخلاقی تعلیمات موجود ہیں۔ برصغیر کے تمام صوفیا، علما کے آثار اور اہم تاریخی و علمی کتب اسی زبان میں موجود ہیں۔ ان کے مطابق، اگر ہم اس زبان سے دوری اختیار کریں گے تو اپنے ایک عظیم ورثے سے محروم ہو جائیں گے۔

يوسف حسين نے مزيد بتايا کہ پاکستان میں فارسی زبان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں دیر، سوات اور چترال میں فارسی زبان سرکاری خط و کتابت کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ریاست چترال میں 1962 تک سرکاری و دفتری زبان فارسی رہی۔

ان کے مطابق، اب بھی دیر سوات اور چترال کے سابقہ معاہدے، اراضی کے کاغذات، اسناد اور خطوط سارے فارسی زبان میں ہیں۔ چترال کی سول کورٹ میں اب بھی بہت سارے مقدمات زیر سماعت ہیں جن کی اسناد فارسی زبان میں ہیں۔

ان کے بقول، اس وقت پورے صوبے میں فارسی کو سمجھنے والوں کا قحط پڑ گیا ہے۔ کوئی بھی ان سابقہ خطوط اور دستاویزات کا ترجمہ نہیں کر سکتا۔ عدالت شعبہ فارسی سے رجوع کرکے ان اسناد کا ترجمہ کراتی ہے۔

پشاور يونيورسٹی سے گزشتہ سال فارغ التحصيل ہونے والے فرمان اللہ نے فارسی ادب ميں گولڈ ميڈل حاصل کيا۔ ليکن، اب وہ پشاور کے گرد و نواح ميں اينٹوں کا کاروبار کرتے ہيں۔

فرمان اللہ
فرمان اللہ

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ ان کی زميںوں پر افغانستان سے تعلق رکھنے والے باشندے کام کرتے تھے اور انہيں ان کی زبان بہت پسند تھی۔ ہمارے علاقے کے لوگ انہيں 'فارسی بان' کہتے تھے۔ اسی مناسبت سے ہم سمجھتے تھے کہ شائد وہ فارسی بولتے ہيں۔ چنانچہ فارسی ادب ميں داخلہ ليا ليکن وہاں پتہ چلا کہ وہ تو دری بولتے تھے اور فارسی زيادہ تر ايران ميں بولی جاتی ہے۔ افغانستان ميں اتنی بول چال کی زبان نہیں ہے۔

فرمان اللہ کے مطابق، شعبہ فارسی ميں طلبہ کی عدم دلچسپی کی بنيادی وجہ ہی يہی ہے کہ اس ميں ان کو اپنا مستقبل نظر نہیں آتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے کسی اور مضمون ميں ماسٹرز کيا ہوتا تو گولڈ ميڈل کے اداروں کی اولين ترجيح ہوتے۔ ليکن گزشتہ دو سال سے فارسی سے متعلق نوکری کا کسی قسم کا اشتہار ان کی نظر سے نہیں گزرا۔

ڈاکٹر يوسف حسين نے بتایا کہ آج کل بی ایس پروگرام کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں فارسی ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن، کالجوں میں فارسی پڑھانے کے لیے استاد نہ ہونے کی وجہ سے اکثر کالجوں میں بی ایس کے ایک سمسٹر میں فارسی مضمون کو اردو کے اساتذہ پڑھاتے ہیں جو درست نہیں ہے۔

ان کے بقول، اگر صوبائی ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ ضلعی سطح پر ایک فارسی استاد تعینات کرے تو اس کمی کو پر کیا جا سکتا ہے۔ پشاور کے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں سے انہیں فارسی زبان و ادب پڑھانے کے لیے استاد کی فراہمی کی درخواست کی جاتی ہے اور وہ ان تعلیمی اداروں کو ریٹائرڈ پروفیسرز کے نام تجویز کرکے بھیجواتے ہیں۔

ان کے مطابق، اگر اس زبان کو روزگار کا ایک ذریعہ بنا کر فن ترجمہ نگاری سکھائی جائے اور طلبہ و طالبات اس زبان کو سیکھ کر فارسی سے دیگر زبانوں میں ترجمے کا فن سیکھ لیں تو اس کی بڑی مانگ ہے، جبکہ نوجوانوں کو اس زبان سے روزگار کے بہتر مواقع میسر آ سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG