فلسطینی صدر محمود عباس نے پیر کے روز بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ دو ریاستی حل کا دفاع کیا جائے، جس کا مقصد اسرائیل اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی امریکی انتظامیہ کو ایک پیغام دینا تھا۔
اس ماہ کے اوائل میں وائٹ ہاؤس کی ایک ملاقات کے دوران دونوں ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطین کے قیام کے تصور کے لیے بین الاقوامی حمایت سے بری الذمہ ہونے کا عندیہ دیا تھا۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے، عباس نے دو ریاستی حل پر یقین رکھنے والے ملکوں سے پر زور دیا کہ وہ ’’حل کے دفاع کے لیے آگے آئیں‘‘ اور فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اس حل کا تحفظ کیا جانا لازم ہے، ناکہ اس سے جان چھڑائی جائے یا اس کی تعظیم نہ کی جائے‘‘۔
بین الاقوامی برادری، جس میں امریکہ بھی شامل ہے، ایک طویل مدت سے دو ریاستی حل کے تصور کی حامی رہی ہے، جو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کا بہترین طریقہ خیال کیا جاتا رہا ہے۔ جنوری میں، فرانس میں منعقد ہونے والے ایک بین الاقوامی اجلاس میں درجنوں ممالک نے اس عزم کا اعادہ کیا، جس سے چند ہی روز بعد ٹرمپ نے عہدہٴ صدارت سنبھالا۔
تاہم، 15 فروری کو ایک مشترکہ اخباری کانفرنس میں، نیتن یاہو نے دو ریاستی حل کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ برعکس اِس کے، اُنھوں نے نئے طریقے تلاش کرنے کی بات کی، جس میں نیا علاقائی انداز اپنانے کے لیے کہا گیا ہے، جس میں دیگر عرب ملک بھی شامل ہوں۔