پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے قیام کے بعد بھی روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ تھم نہیں سکا ہے ۔نئی حکومت کے آنے کے بعد سے اب تک روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں لگ بھگ 24 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔
انٹربینک ہو یا اوپن مارکیٹ ڈالر روز تاریخ کی نئی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے اور بدھ کو بھی مارکیٹ کے اختتام پر انٹربینک میں ایک امریکی ڈالر 206 روپے 46 پیسے پر بند ہوا۔ رواں ہفتے کے آغاز سے صرف تین دن میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً تین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی 2021 سے بدھ تک انٹربینک میں امریکی کرنسی کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر تقریباً50 روپے گرچکی ہے جو ملکی کرنسی میں لگ بھگ تیس فی صد کمی ہے۔
پاکستان میں کرنسی ڈیلرز کی تنظیم فاریکس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ بدھ کو انٹربینک میں ڈالر207 روپے تک پہنچا تھا تاہم دن کے اختتام پر یہ 206 روپے 46 پیسے پر بند ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر میں یہ اضافہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے جو معاشی عدم استحکام کی عکاسی کرتی ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق سیاسی عدم استحکام، آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط ملنے میں تاخیر اور بڑھتا تجارتی خسارہ بھی ڈالر کی قیمت میں تاریخی اضافے کی وجوہات ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں تاریخی کمی کی مقامی وجوہات کے ساتھ ساتھ بعض عالمی وجوہات بھی ہیں، جن میں عالمی مارکیٹ میں شرح سود اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ قابل ذکر ہے۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ ڈالر کی قدر پوری دنیا میں بڑھ رہی ہےجس کی وجہ عالمی مارکیٹ میں شرح سود میں اضافہ اور طلب و رسد کا فرق ہے۔
ان کے بقول بھارت ، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک کی کرنسی میں بھی چار سے چھ فی صد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا وبا کے دوران امریکہ میں شرح سود کم رکھی گئی تھی ، تاہم اس میں اضافے کے بعد اب وہاں بھی مہنگائی کی تاریخی شرح دیکھی جا رہی ہے۔
خرم شہزاد نےکہا کہ گزشتہ اور موجودہ حکومت کی فیصلہ سازی میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو اضافی بوجھ اٹھانا پڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی وجوہات کے علاوہ مقامی عوامل بھی روپے کی قدر میں کمی میں کردار ادا کررہے ہیں جن میں سیاسی عدم استحکام اور عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو عوام تک بروقت منتقل نہ کرنا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں دس روپے کمی کی تھی اور اسے آئندہ بجٹ تک نہ بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد آنے والی نئی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کیا ہے۔
حکومت نے بدھ کی شب بھی پیٹرول کی قیمت میں 24 اور ڈیزل کی قیمت میں 59 روپے کا اضافہ کیا ہے، جس کے بعد نئی حکومت نے 20 روز میں مجموعی طور پر پیٹرول 84 روپے جب کہ ڈیزل 119 روپے بڑھا دیا ہے۔
پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر کہا کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی وجہ سے قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ معاہدہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کیا تھا۔
شہباز شریف نے کہا کہ وہ آئی ایم ایف اور تحریک انصاف کے معاہدے کی تفصیلات پر جلد قوم کو اعتماد میں لیں گے، ہم ان معاشی مشکلات سے نکلیں گے۔
خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی توانائی ضروریات کا 95 فی صد درآمد کرتا ہے جب کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ملک کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل نے بھی روپے پر اضافی دباؤ ڈالا ہے۔
'ڈالر کی اصل قیمت 190 سے 192 روپے ہے'
ظفر پراچہ کہتے ہیں کہ عوام کی قوت خرید ختم ہونے کے باعث مارکیٹ میں ڈالر کی طلب نہیں ہےلیکن اس کے باوجود اس کی قدر میں اضافہ قیاس آرائیوں اور ہیراپھیری کرنے والوں کے سبب ہے یا ایسا لگتا ہے کہ حکومت دانستہ طور پر ایسا چاہتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومتی رہنما جو چند ماہ قبل اپوزیشن میں تھے، وہ اس وقت کہتے تھے کہ ڈالر اصل قیمت سے زائد پر فروخت ہو رہا ہے۔ البتہ اب جب وہ حکومت میں ہیں تو وہ اسے روکنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
ظفر پراچہ کے بقول اس وقت بھی ڈالر کی اصل قیمت 190 سے 192 روپے ہے کیوں کہ ملک کی معاشی اشاریے رواں سال میں بہتر رہے ہیں اور روپے کی قدر میں اس غیرمعمولی اور مسلسل اضافے کی معاشی وجوہات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب بھی روپے کی قدر میں کمی ہوتی تھی تو اسٹیٹ بینک حرکت میں آتا تھا۔ لیکن اب روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باوجود حکومت اور مرکزی بینک نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
ظفر پراچہ نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ جب موجودہ حکومت آئی تھی تو روپے کی قدر میں 7 روپے اضافہ ہوا تھا اور اسٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری آئی تھی۔
'آئی ایف ایم معاہدے سے مارکیٹ میں استحکام آئے گا'
انہوں نےکہا کہ سیاسی عدم استحکام اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا بحال نہ ہونا بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجوہات ہیں۔ دوست ممالک نے بھی مالی امداد کی فراہمی کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے نتھی کررکھا ہے جس وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر سے کم ہوگئے ہیں۔
فاریکس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل کے مطابق پاکستان کا روپیہ خطے میں اس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ افغانستان کی کرنسی بھی روپے سے بہتر ہے۔
البتہ خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ پر آئی ایم ایف نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں اور امکان ہے کہ حکومت بجٹ میں کچھ تبدیلوں کے ساتھ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدے پر اتفاق کرلے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ماہ کے آغاز تک پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاہدےکی توثیق ہوجائے گی جس کے باعث معیشت میں استحکام آئے گا اور مقامی سطح پر ڈالر کی قیمت میں بھی ٹھہراؤ پیدا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ عالمی مارکیٹ میں بھی آنے والے ہفتوں میں کھانے پینے کی اشیاسستی ہوں گی جب کہ تیل کی قیمتوں میں بھی کمی کا امکان ہے جس سے پاکستان کے درآمدی بل میں کمی آئے گی جو کہ معیشت پر اضافی بوجھ کو کم کرے گا۔