رسائی کے لنکس

پاکستانی علماکے کابل میں تحریکِ طالبان سے مذاکرات میں کیا ہوا؟


پاکستانی علما کا وفد پیر کو کابل پہنچا تھا
پاکستانی علما کا وفد پیر کو کابل پہنچا تھا

پاکستانی علما کے وفد نے کابل میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت سے ملاقات کی ہے جس کے بعد اس میں ہونے والی بات چیت کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستانی علما کا وفد مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں پیر کو کابل پہنچا تھا۔

پشاور کے سینئر صحافی اور افغانستان کے امور پر دسترس رکھنے والے صحافی مشتاق یوسفزئی کے مطابق منگل کو ہونے والے ان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ وفد میں شامل تمام اراکین کو تمام حلقوں کی جانب سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن مذاکرات میں پیش رفت کے لیے ضروری ہے کہ فریقین لچک دکھائیں۔

پاکستان کے بارہ علما پر مشتمل وفد کے کابل میں قیام اور انتظامات کی ذمے داری پاکستانی سفارت خانے کے پاس ہے، تاہم افغانستان میں طالبان حکومت کی وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی سمیت دیگر حکام نے وفد کا استقبال کیا تھا۔

سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی کے دفتر نے اس وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایک پیغام میں کہا کہ افغانستان کے بعد اب امارت اسلامی خطے میں قیام امن کے لیے کوشاں ہے اور پاکستانی علما کے وفد کی کابل میں موجودگی اس عمل کا آغاز ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ عرصے میں افغانستان میں طالبان حکومت، کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کر رہی ہے۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں ترک کر کے قومی دھارے میں شامل ہونا چاہے تو انہیں رعایت دی جا سکتی ہے۔ البتہ ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات کی منظوری تک پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہو گا۔


وفد میں کون کون شامل ہے؟

پاکستانی علما کے وفد میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا انوارالحق ، مولانامحمد حنیف جالندھری ، مفتی غلام الرحمن ، مولانا حسین احمد ، مولانا قاری احسان الحق ، مولانا محمد طیب پنج پیر ، سینیٹر طلحہ محمود، مولانا ڈاکٹر عمران اشرف، مولانا حافظ سلمان الحق، مولانا احمد حنیف جالندھری، مولانا احسان الرحمن،مولانا ابراہیم سکر گاہی، مولانا نعمان اور حافظ مسعود احمد شامل ہیں۔

کابل سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق منگل کو وفد نے افغانستان میں روپوش ٹی ٹی پی کے 10 رُکنی وفد کے ساتھ سرینا ہوٹل کابل میں ملاقات کی۔

مذاکرات کے دوران ٹی ٹی پی نے دو صفحات پر مشتمل ایک بیان جاری کیا جس میں نہ صرف وفد کا خیر مقدم کیا گیا بلکہ اس میں طالبان نے اپنے دیرینہ مؤقف اور شرائط پر ڈٹے رہنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

جماعت اسلامی پاکستان خیبر پختونخوا کے سابق امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ وفد میں شامل علما اور دانش ور کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور وہ طالبان پر اثر انداز بھی ہو سکتے ہیں۔

مگر اُن کے بقول اب یہ فریقین کے رویوں پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک ان علما کرام کے اثرو رسوخ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

ان کے بقول طالبان قبائلی علاقوں کی سابقہ حیثیت کی بحالی پر اصرار کر رہے ہیں جو ایک آئینی مسئلہ ہے اور قبائلی علاقوں کی سابقہ حیثیت کی بحالی ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں فریقین کو شرائط اور مطالبات میں نرمی دکھانے کی ضرورت ہے۔

وضاحت: اس خبر کے ابتدائی ورژن میں سہواً یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جماعتِ اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان بھی افغانستان جانے والے علما کے وفد میں شامل تھے جو درست نہیں۔ اپ ڈیٹڈ خبر میں اس کی تصحیح کردی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG