مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی پاکستانی نژاد امریکی سائیکیٹرسٹ ڈاکٹر فرح عباسی کا کہنا ہے کہ ایک ماہر نفسیات اور ایک سائکیٹرسٹ کے لئے مریض کے، مذہب ، عقیدے اور ثقافتی پس منظر کو سامنے رکھے بغیر اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے اور اس لئے مذہبی راہنما ، کمیونٹی لیڈرز اور ماہرین نفسیات مل کر ہی کسی نفسیاتی مریض کا مکمل اور مستقل علاج کر سکتے ہیں ۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مسلم یوتھ میں اینکزائٹی ،ڈپریشن، شیزو فرنیا، بائی پولر ،خود کشی اور منشیات کے استعمال جیسے مسائل دیکھ رہی ہیں ۔
ڈاکٹر فرح عباسی کو حال ہی میں امریکہ کی ویمن فیتھ لیڈرز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔انہیں یہ ایوارڈ نفسیاتی مسائل کے علاج میں عقیدے اور ثقافت کی اہمیت تسلیم کرانے سے متعلق ان کی کوششوں پر دیا گیا ہے ۔ امریکی وفاقی وزیر صحت زیوئر بسیرا کی میزبانی میں واشنگٹن میں وومن آن دی فرنٹ لائنز، سیلیبریٹنگ ویمن فیتھ لیڈرز کے عنوان سے منعقدہ ایک اولین تقریب میں ا س ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
پروفیسر ڈاکٹر فرح عباسی نے مشی گن سے ایک تفصیلی انٹر ویو میں وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس ایوارڈ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کسی میگزین یا نجی ادارے کی طرف سے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی طرف سے دیاگیا ایوارڈ ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ وفاقی حکومت نےمختلف عقائد کی حامل امریکہ بھر کی خواتین مذہبی راہنماؤں کی خدمات کو ایوارڈ ز کے ساتھ سراہا ہے اور اس حوالے سے ہونے والی اس اولین تقریب میں یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی وہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ گزشتہ ماہ امریکی وفاقی وزیر صحت زیوئر بسیرا کی میزبانی میں واشنگٹن میں وومن آن دی فرنٹ لائنز، سیلیبریٹنگ ویمن فیتھ لیڈرز کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب میں دیا گیا جس میں امریکہ بھر سےایوارڈ کے لیےنامزد 15 فرنٹ لائنز ویمن فیتھ لیڈرز شامل تھیں۔
پروفیسر ڈاکٹر فرح عباسی نے بین العقائد ہم آہنگی اور ذہنی صحت کے شعبے میں اس اہم اعزاز تک کے سفر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ وہ ایک پریکٹسنگ مسلم ہیں لیکن وہ مذہبی اسکالر نہیں ہیں۔ تاہم وہ جانتی ہیں کہ ایک ماہر نفسیات اور ایک سائکیٹرسٹ کے لئے مریض کے، مذہب ، عقیدے اور ثقافتی پس منظر کو سامنے رکھے بغیر اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے اور ا س لئے مذہبی راہنما ، کمیونٹی لیڈرز اور ماہرین نفسیات مل کر ہی کسی نفسیاتی مریض کا مکمل اور مستقل علاج کر سکتے ہیں ۔
ڈاکٹر فرح عباسی نے کہا اسی خیال کو اجاگر کرنے کےسلسلے میں انہوں نے 2008 میں مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی اپنی فیلو شپ کے دوران امریکین سائیکیٹرسٹ ایسو سی ایشن سے ملنے والی ایک گرانٹ کو مشی گن میں ایک مینٹل ہیلتھ کانفرنس کے انعقاد کے لیے استعمال کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ بنیادی طور پر تو ایک مینٹل ہیلتھ کانفرنس تھی لیکن اس کا محور مسلم مینٹل ہیلتھ تھا جس میں دنیا بھر کے 30 ملکوں سے ماہرین نفسیات، مسلم راہنماؤں اور سماجی کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا اور اس بارے میں غور کیا گیا کہ ذہنی امراض کے علاج میں مذہبی اور ثقافتی پس منظر کو کس طرح شامل کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ مشی گن میں منعقدہ اپنی نوعیت کی اس پہلی کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے بعد سے وہ ہر سال اس کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہیں اور گزشتہ 15 برسوں میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اس کانفرنس کے انعقاد کے بعد اب یہ ایک گلوبل کانفرنس بن چکی ہے جسے وہ دنیا بھر کے متعدد ملکوں میں منعقد کر چکی ہیں جن میں اردن ،انڈونیشیا ، ملائیشیا، ترکی اور پاکستان شامل ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں ہر سال اس کانفرنس کے شرکا کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس سال اس کانفرنس میں ،جسے ورچوئل طور پر بھی منعقد کیا گیا ،دنیا بھر کے مختلف ملکوں سے 500 ماہرین نفسیات ، مذہبی اسکالر ز، سماجی کارکنوں اور طالب علموں نے شرکت کی جن میں جنوبی افریقہ ، برازیل ، اردن ، انڈونیشیا ، ملائیشیا ، جرمنی آسٹریلیا، بھارت ، پاکستان شامل تھے جو یا تو بذات خود کانفرنس میں شریک ہوئے یا انہوں نے آن لائن اس کانفرنس شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ اس سال کی کانفرنس میں ممتاز مسلم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مثلاً روح ایپ کے ارکان نے شرکت کی جب کہ آن لائن کرائسس ہاٹ لائن ، نصیحا کے ارکان کینڈا سے شرکت کرنے یہاں مشی گن آئے ۔
ڈاکٹر فرح عباسی نے بتایا کہ اس کانفرنس میں ذہنی امراض کے شعبے میں ہونے والی تازہ ترین ریسرچز کو پیش کیا جاتا ہے جب کہ کمیونٹی کے ارکان آپس میں نیٹ ورکنگ کرتے ہیں اور مزید ریسرچ اور پراجیکٹس کے لیے پارٹنر شپ کرتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے تحت مساجدکے اماموں، مسلم کمیونٹی لیڈر ز، سماجی کارکنوں ، طالب علموں ، میڈیکل طالب علموں کے لیے نفسیاتی امراض اور ان کے علاج کے بارے میں تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کی سرٹیفیکیشن کے بعد وہ اپنے اپنے حلقوں میں سامنے آنے والے ذہنی مریضوں کو فرسٹ ایڈ دے سکتے ہیں اور ان کے مرض کی شدت کا اندازہ لگانے کے بعد انہیں ماہرین نفسیات کو ریفر کر سکتے ہیں ۔
اس کانفرنس کی عملی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے 15 سال قبل پہلی کانفرنس منعقد کی تھی تو ذہنی بیماریوں سے منسلک اسٹگما یا شرم کےا حساس کے باعث لوگ اس کانفرنس میں شرکت سے ہچکچا رہے تھے لیکن اس سال ذہنی صحت کے ماہرین، طالب علموں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ ساتھ مشی گن بھر کی مساجد کے 15 اماموں نے اس کانفرنس میں شرکت کی جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس کانفرنس نے ذہنی امراض میں مذہب اور ثقافت کی اہمیت کو تسلیم کرانے میں ایک کردار ادا کیا ہے ۔
اس سوال کےجواب میں کہ مشی گن یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی ایک سائکیٹرسٹ کے طور پر ان کا مسلم یوتھ سے رابطہ رہتا ہے تو انہیں ان میں کون کون سے امراض اور مسائل نمایاں دکھائی دیتے ہیں، ڈاکٹر فرح عباسی نے کہا کہ وہ اس وقت مسلم یوتھ میں اینکزائٹی ،ڈپریشن، شیزو فرنیا، بائی پولر ،خود کشی اور منشیات کے استعمال جیسے مسائل دیکھ رہی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی نو جوانوں کو ایسے مسائل پیش آتے ہیں تو ان کے اہل خانہ آخر کار مساجد کے اماموں سے رجوع کرتے ہیں اور ہمارے پلیٹ فارم سے سرٹیفائیڈ امام اب یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ مسئلہ کس حد تک ایک روحانی کرائسس ہے اور روحانی کاونسلنگ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور کب وہ ایک ذہنی بیماری بن چکا ہے جس کے حل کے لیے اسے ماہرین نفسیات کے حوالے کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
مسلم مینٹل ہیلتھ کے پلیٹ فارم کی عملی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کے ذریعے مسلم یوتھ کو ایک ماڈل پلیٹ فارم بنا کر دے دیا ہے جہاں مذہب ، سائنس، ثقافت اور ذہنی صحت سب ایک ہی وقت میں دستیاب ہوتے ہیں اور انہیں اپنے ہر مسئلے کا حل ایک ہی جگہ پر مل جاتا ہے جہاں ماہرین نفسیات ، مساجد کے امام ، سماجی کارکن اور اہل خانہ سب مل کر اپنی اپنی حد میں رہتے ہوئے اپنی اپنی مہارتوں کو بروئے کار لا کر ان کے مسائل کو حل کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ مسلم مینٹل ہیلتھ اور ذہنی صحت سے متعلق دوسرے انٹر فیتھ اداروں کی کوششوں سے اب عقیدے اور ثقافت کی بنیاد پر ذہنی علاج کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس بارے میں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں جب کہ اس موضوع کو میڈیکل ریزیڈینسی اور اور میڈیکل اسکول لیول پر پڑھایا جا رہا ہے ۔
مشی گن کی اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرح عباسی نے لیاقت میڈیکل کالج حیدرآباد سے ایم بی بی ایس اور امریکن سائیکٹرک ایسوسی ایشن کی اقلیتی فیلوشپ حاصل کی تھی ۔ وہ اس وقت لینسنگ سٹی مئیر کی مینٹل ہیلتھ ٹاسک فورس کی چیئر پرسن بھی ہیں ۔
ڈاکٹر فرح عباسی کا ادارہ 'مسلم مینٹل ہیلتھ' دوسرے رفاہی اداروں کے ساتھ مل کر امریکہ میں آنے والے مسلم پناہ گزینوں کے ذہنی مسائل کے حل اور اس وقت مشی گن میں آنے والے افغان تارکین وطن کے نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے آبائی ملک پاکستان کے لیے کیا کچھ کر رہی ہیں تو ڈاکٹر فرح عباسی نے کہا کہ وہ پاکستانی امیریکن ڈاکٹروں کی تنطیم اپنا میں پاکستانی امریکن سائیکیٹرسٹ آف نارتھ امریکہ کے گروپ پاپانا کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں او ر اس پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم اورمسلم مینٹل ہیلتھ کنورشیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں شروع ہونے والے بہت سے پراجیکٹس میں نمایاں طور پر شامل ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ’پاپانا‘ کے تحت پاکستان میں منشیات کے سد باب کے سلسلے میں مذہبی راہنماؤں کے لیے ایک تربیتی پراجیکٹ مکمل ہو چکا ہے جب کہ ٹرانس جینڈر ہیلتھ کا ایک بڑ پراجیکٹ اور آٹزم کلینک کا ایک پراجیکٹ عنقریب شروع ہو رہا ہے ۔ اسی طرح مشی گن اسٹیٹ کا غربت کے خاتمے کا ایک پروگرام بھی عنقریب شروع کیا جا رہا ہے ۔