پاکستان میں سینما مالکان اور فلموں کے تقسیم کاروں نے ملک میں بھارتی فلموں کی نمائش پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے پیر سے ملک بھر میں ان فلموں کی نمائش دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اوڑی کے علاقے میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے جس سے نا صرف دونوں ملکوں کے باہمی سفارتی تعلقات متاثر ہوئے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان عوامی اور سماجی رابطوں پر بھی منفی اثر پڑا۔
اس کشیدہ ماحول میں بھارت میں کچھ سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے پاکستانی فنکاروں کے بھارتی فلموں میں کام کرنے پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں پاکستان واپس چلے جانے کے لیے کہا گیا۔
اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں بھی بعض حلقوں کی طرف سے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش روک دینے کے مطالبات سامنے آئے۔ اگرچہ سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی قدم نا اٹھایا گیا تاہم ملک میں سینما مالکان اور بھارتی فلموں کے تقسیم کاروں نے رواں سال ستمر کے اواخر میں اپنے طور پر بھارتی فلموں کی نمائش روک دی۔
گو کہ جنوبی ایشیا کے دونوں ملکوں کی حالیہ باہمی کشدگی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے تاہم اس کے باوجود پاکستان میں سینما مالکان اور فلم کے کاروبار سے وابستہ تنظیموں نے بھارتی فلموں کی نمائش دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان میں سینما مالکان کی ایک نمائندہ تنظیم کے سربراہ زوریز لاشاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " سب سینما مالکان اور فلم کے تقسیم کاروں اور دیگر متعلقہ افراد نے اتفاق کیا ہے جو پیغام ہم نے دینا تھا وہ (بھارتی ) فلموں کی نمائش پر پابندی لگا کر وہ پہنچا دیا گیا۔ اب ہمیں آگے بڑھنا چاہیئے یہ ہمیشہ کے لیے پابندی نہیں تھی اور سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ جو خود سے پابندی عائد کی گئی تھی اس کو ختم کر دیا جائے۔"
زوریز لاشاری نے کہا کہ فلموں کی دوبارہ نمائش شروع کرنے کا فیصلہ بڑا سوچ سمجھ کر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس پابندی کی وجہ سے سینما گھر بند ہونا شروع ہو گئے تھے اور بڑی تعداد میں لوگوں کا روزگار چھن جانے کا خدشہ تھا۔
تاہم بعض فلم مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فلمی صنعت کو فروغ دے کر ان مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔
پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے سربراہ اور معروف اداکار جمال شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "میرا خیال ہے کہ آخر کار آپ کو اپنی فلموں پر ہی انحصار کرنا ہو گا اگر آپ بھارتی فلموں پر ہی انحصار کرتے رہے تو پھر مقامی فلمی صنعت فروغ نہیں پائے گی۔ لہذا حالات ایسے پیدا کرنے چاہیئں جو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مقامی صنعت زیادہ سے زیادہ فعال ہو زیادہ فلمیں بنیں اور ایسی فلمیں جو سینماؤں کو آباد کر سکیں۔"
اگرچہ ماضی میں پاکستان فلمی صنعت کو کئی طرح کے چلینجوں کا سامنا رہا ہے تاہم حالیہ چند سالوں کے دوران پاکستانی فلم سازوں کی بنائی گئی فلموں کو نا صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے۔
رواں ہفتے ہی پاکستان کی معروف فلم ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے کی آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم 'اے گرل ان دی ریور' نے کولمبیا یونیورسٹی کا الفریڈ آئی دوپانت ایوارڈ جیت لیا ہے۔