پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں جمعہ کو شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران کم ازکم پانچ مبینہ شدت پسند مارے گئے۔
قبائلی و سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ تازہ کارروائی بابڑ نامی علاقے میں کی گئی۔ مرنے والے شدت پسندوں کی شناخت کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
ایک روز قبل ہی شمالی وزیرستان میں ایک اہم قبائلی رہنما کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے دو ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا تھا۔
ملک قادر خان اپنے گاؤں جا رہے تھے کہ ایک گاڑی پر سوار حملہ آوروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے وہ موقع پر اپنے دو ساتھیوں سمیت موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
ملک قادر خان کو ’چیف آف وزیرستان‘ بھی کہا جاتا تھا اور ان کا شمار حکومت کے حامی اہم قبائلی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اس حملے میں کون لوگ ملوث ہیں لیکن حالیہ دنوں میں شمالی و جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے مختلف گروپوں کے درمیان لڑائی اور ایک دوسرے پر حملے ہوتے رہے ہیں جس میں درجنوں عسکریت پسندے مارے جا چکے ہیں۔
یہ تازہ واقعات ایک ایسے وقت پیش آئے ہیں جب حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل بظاہر تعطل کا شکار ہے جب کہ طالبان کے رابطہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ جلد بحال ہو جائے گا۔
اس دوران بعض ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ پشاور کی جیل سے کالعدم تحریک طالبان کے لگ بھگ 35 سے 50 اہم قیدیوں کو کوہاٹ اور ہری پور کی جیلوں میں منتقل کیا گیا اور یہ منتقلی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے عمل میں آئی۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ قیدیوں کی اس منتقلی کی وجوہات کیا ہیں اور نا ہی حکام نے اس بارے میں تفصیلات فراہم کی ہیں۔
قبائلی و سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ تازہ کارروائی بابڑ نامی علاقے میں کی گئی۔ مرنے والے شدت پسندوں کی شناخت کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
ایک روز قبل ہی شمالی وزیرستان میں ایک اہم قبائلی رہنما کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے دو ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا تھا۔
ملک قادر خان اپنے گاؤں جا رہے تھے کہ ایک گاڑی پر سوار حملہ آوروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے وہ موقع پر اپنے دو ساتھیوں سمیت موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
ملک قادر خان کو ’چیف آف وزیرستان‘ بھی کہا جاتا تھا اور ان کا شمار حکومت کے حامی اہم قبائلی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اس حملے میں کون لوگ ملوث ہیں لیکن حالیہ دنوں میں شمالی و جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے مختلف گروپوں کے درمیان لڑائی اور ایک دوسرے پر حملے ہوتے رہے ہیں جس میں درجنوں عسکریت پسندے مارے جا چکے ہیں۔
یہ تازہ واقعات ایک ایسے وقت پیش آئے ہیں جب حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل بظاہر تعطل کا شکار ہے جب کہ طالبان کے رابطہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ جلد بحال ہو جائے گا۔
اس دوران بعض ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ پشاور کی جیل سے کالعدم تحریک طالبان کے لگ بھگ 35 سے 50 اہم قیدیوں کو کوہاٹ اور ہری پور کی جیلوں میں منتقل کیا گیا اور یہ منتقلی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے عمل میں آئی۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ قیدیوں کی اس منتقلی کی وجوہات کیا ہیں اور نا ہی حکام نے اس بارے میں تفصیلات فراہم کی ہیں۔