پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی طرف سے سڑک میں نصب دیسی ساخت کے بم دھماکے سے کم از کم نو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ یہ واقعہ غلام خان نامی علاقے کے قریب پیش آیا۔
زخمی اہلکاروں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ شمالی وزیرستان کو القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ اس علاقے میں موجود جنگجو سرحد پار افغان اور غیر ملکی افواج پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
نواز شریف انتظامیہ نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا عمل شروع کر رکھا ہے تاہم وہ اب تعطل کا شکار ہے۔
گزشتہ ماہ طالبان نے مذاکرات کے لیے اعلان کردہ فائر بندی میں توسیع نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد تشدد کے مختلف واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک میں امن کے لیے مذاکرات ہی پہلی ترجیح ہے لیکن شدت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر حملوں یا دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں کو برداشت نہیں کیا جائے۔ حکام ایسے واقعات پر "بھرپور" جوابی کارروائی کا عندیہ دے چکے ہیں۔
وزیرستان کے علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دو مختلف گروہوں میں لڑائی اور ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ ماہ سے وقتاً فوقتاً ہونے والی ان جھڑپوں میں اب تک درجنوں شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ یہ واقعہ غلام خان نامی علاقے کے قریب پیش آیا۔
زخمی اہلکاروں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ شمالی وزیرستان کو القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ اس علاقے میں موجود جنگجو سرحد پار افغان اور غیر ملکی افواج پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
نواز شریف انتظامیہ نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا عمل شروع کر رکھا ہے تاہم وہ اب تعطل کا شکار ہے۔
گزشتہ ماہ طالبان نے مذاکرات کے لیے اعلان کردہ فائر بندی میں توسیع نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد تشدد کے مختلف واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک میں امن کے لیے مذاکرات ہی پہلی ترجیح ہے لیکن شدت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر حملوں یا دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں کو برداشت نہیں کیا جائے۔ حکام ایسے واقعات پر "بھرپور" جوابی کارروائی کا عندیہ دے چکے ہیں۔
وزیرستان کے علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دو مختلف گروہوں میں لڑائی اور ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ ماہ سے وقتاً فوقتاً ہونے والی ان جھڑپوں میں اب تک درجنوں شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔