سیالکوٹ کے نواحی علاقے بٹر میں پولیس کے ایک مرکز سے کچھ ہی فاصلے پر درجن بھر پولیس اہل کاروں اور بہت سے شہریوں کی موجودگی میں دو نوجوان بھائیوں کے بیہیمانہ قتل اور اس واقعے کی وڈیو نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا ہمارا سماج مجموعی طور پر تشدد کی راہ اختیار کر رہا ہے، تشدد کو قبول کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اس کی وجہ ریاست پر شہریوں کے اعتماد کا متزلزل ہونا ہے؟ کیا معاشی اور معاشرتی دباؤ لوگوں کو تشدد پر مائل کر رہا ہے؟ کیا رحم کا جذبہ جس کا درس مذہب کی تعلیمات میں جگہ جگہ موجود ہے، ایک خواب بنتا جا رہا ہے؟ کیا اس کے حل کے لیے ہر جگہ انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟
یہ وہ سوالات تھے جو ریڈیو آپ کی دنیا کے پروگرام راونڈ ٹیبل میں اٹھائے گئے۔ اس پروگرام میں شریک گفتگو تھے، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود ، ممتاز ماہر قانون اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، مہرین انورراجہ، وزیر مملکت برائے قانون و انصاف، حاجی حنیف طیب سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور ممتاز مذہبی سکالر، ڈاکٹر منظور اعجاز واشنگٹن میں مقیم دانشور و تجزیہ کار اور ڈاکٹر عنایت الرحمن، ممتاز ماہر امورنفسیات۔
جسٹس طارق محمود، سابق صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن :
ان کا کہنا تھا کہ تشدد پاکستانی معاشرے میں پہلی بار دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اس کی تاریخ پرانی ہے۔ کتابوں میں نصابوں میں بھی ‘‘مسلمان پانی اور ہندو پانی ’’ پڑھایا جاتا تھا، پھر تقسیم کے وقت خون کے ندیا ں بہائی گئیں اور پھر پاکستان بننے کے بعد بعض حکمرانوں نے اسی تشدد کو حکومت کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نےحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق فوجی صدر جنرل ضیاءالحق کے دور میں مجرموں کو سرعام کوڑے مارے جاتے تھے اور ان کے منہ کے پاس مائیکروفون رکھ دیے جاتے تھے کہ لوگ ان کی چیخ وپکار سنیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں تو شاید ممکن نہیں لیکن ترقی پاکر اعلی عہدوں پر فائز ہونے والے، جاگیردانہ ذہن کے پولیس افسر سے بہتر وہ شخص ہو سکتا ہے جس نے پبلک سروس کمشن کے ذریعے یہ عہدہ حاصل کیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس ریاستی جبر کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس ادارے کو سیاستدانوں کے اثرسے آزاد کرنا ہوگا اور سیاستدانوں کی آنے والے کل کے لیے وژن دینا ہو گا ۔
حاجی حنیف طیب، سابق وفاقی وزیر /عالم دین
حاجی حنیف طیب نے جسٹس طارق محمود کے خیالات کے اتفاق کیا اور کہا کہ خرابی کے ازالے کے لیے، حالات سدھارنے کے لیے سب کو مل جل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ علماء اور مشائخ کا بھی اس میں بڑا کلیدی کردار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے مروجہ قوانین کا احترام سب پر ضروری ہے اور ہم نے علماء کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ مسجد کے ممبر کو اس پیغام کے لیے بھی استعمال کریں کہ قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے ملزم کو ریاست کے اداروں کے سپرد کریں۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ انصاف میں تاخیر کا مسئلہ ایک مدت سے درپیش رہا ہے اور اب جا کر لوگوں کو اعلی عدالت سے تو انصاف کی امید وابستہ ہوئی ہے لیکن پولیس اور ماتحت عدالتوں پر اب بھی اعتماد میں کمی ہے۔
ڈاکٹر منظور اعجاز، مصنف/کالم نگار
ڈاکٹر منظور اعجاز کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ کا واقعہ اوراس طرح کے دیگر واقعات کے سبب بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی اپنی شناخت پاکستانی کے طور پر کرانے سے شرم محسوس کرنے لگے ہیں۔ ان واقعات کا تدارک کرنا ہو گا اور پولیس اور پارلیمان جیسے اداروں میں سے ‘‘جاگیردارانہ سوچ’’ کا خاتمہ کرنا ہو گا وگرنہ حالات نہیں سدھریں گے۔
ڈاکٹر عنائت الرحمن، ماہرامورنفسیات
ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ کا واقعہ معاشرے کے اجتماعی طور پر تشدد میں ملوث ہونے کی وجہ سے باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد انسان کی جبلت میں اگرچہ موجود ہے، لیکن معاشرت اس جذبے کو قابو میں رکھتی ہے۔ انصاف میں تاخیر اور پولیس کے نظام میں بگاڑانسان کو تشدد پر اکساتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ معاشروں اور قوموں کے اندر سے اس جذبے کی نفی میں سیاسی قیادت کا بڑا کردار ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں سیاستدانوں کے بیانات پڑھیں تو ‘‘اینٹ سے اینٹ’’ بجانے اور چوک پر الٹا لٹکا دینے، کیفرکردار تک پہنچانے جیسی اصطلاحات عام پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے سخت الفاظ کی بجائے ‘‘شریفانہ’’ طرز تخاطب اختیار کرنا بے حد ضروری ہے کہ قوم کی تربیت بھی اس سے مقصود ہونی چاہیے۔
مہرین انورراجہ، وزیرمملکت برائے قانون و انصاف:
پاکستان میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی راہنما اور وزیرمملکت برائے قانون و انصاف مہرین انور راجہ کا ا کہنا تھا کہ سیالکوٹ کا واقعہ بے حد افسوسناک ہے۔ اس واقعے نے یہ باور کرا دیا ہے کہ ادارے مضبوط کرنا ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کے ریاست پر عدم اعتماد کی بات اس لیے نہیں کی جاسکتی کیونکہ جمہوریت کو پھلنے پھولنے ہی نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے وزراعدلیہ سے ٹکر لینے کی بجائے عدالت حاضر ہور ہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت قانون و انصاف کے معاملے میں کسی تخصیص کی قائل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت 18 ویں ترمیم لا چکی ہے ، این ایف سی ایوارڈ کا اعلان بھی کر چکی ہے ، عدالتوں کی آزادی کو یقینی بنا چکی ہے اور بلوچستان سے معافی بھی طلب کرچکی ہے ۔ یہ سب باتیں آنے والے کل کو دیکھ کر ہی کی گئ ہیں۔ البتہ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کا پولیس کے معاملے میں مداخلت کرنے کی روایت افسوسنا ک ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ حکومت اداروں کے استحکام کے لیے کام کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے طے کررکھا ہے کہ وہ سسٹم کا ساتھ دیں گے افراد کا نہیں۔ ہم سے غلطی ہو گی تو سسٹم کا سامنا کریں گے، خود کو پیش کریں گے جمہوریت اور قوم کے سامنے۔