پاکستانی فوج کے ترجمان نے قبائلی علاقوں شمالی و جنوبی وزیرستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں وکی لیکس کے تازہ انکشاف کی تردید ہے ۔
ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اس میں بالکل کوئی صداقت نہیں ہے کہ امریکی فوجی شمالی یا جنوبی وزیرستان میں موجود تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں ہونے والی فوجی کارروائیوں میں سے کسی بھی علاقے میں امریکی فوجی شامل نہیں تھے۔
وکی لیکس کی طرف سے فراہم کردہ سفارتی مراسلوں کی یہ تازہ تفصیلات ہفتہ کو پاکستان کے انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ نے شائع کیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2009 ء میں امریکی اسپیشل فورسز کے اہلکاروں نے پاکستانی فوجیوں کے ساتھ مل کر انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کیں اوراسی سال فوجی آپریشن میں امریکی فوجی تعینات بھی کیے گئے تھے۔
سفارتی مراسلے کے مطابق امریکی فوجی جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا اور شمالی علاقے میران شاہ میں پاکستان کی 11کور کے فوجیوں کے ساتھ تعینات کیے گئے تھے ۔
وکی لیکس کی طرف سے جاری ہونے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت اس سے قبل امریکی فوجیوں کو اپنے دستوں کے ساتھ شامل کرنے کی مخالفت کرتی آئی ہے لیکن حالیہ اجازت پاکستان کی سوچ میں بڑی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے۔
ڈان اخبار میں جمعہ کو شائع کی گئی وکی لیکس کی تفصیلات میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی افواج کی کارروائیوں میں امریکہ سے ڈرون یا بغیر پائلٹ کے طیاروں کی مدد مانگی تھی لیکن فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک ترجمان نے اسے بھی مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی میں محض چند علاقوں میں صرف تکنیکی خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ ”ہم نے کبھی بھی اپنی (پاکستانی) کارروائیوں میں امریکی ڈرون حملوں کی مدد کا مطالبہ نہیں کیا۔“
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1