پاکستان نے دوطرفہ تعلقات کی بحالی میں تاخیر پر امریکہ کی ’’بے چینی‘‘ سے متعلق قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن ناصرف اُس کے موقف کو سمجھتا بلکہ اس کی قدر بھی کرتا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے جمعہ کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی وزرائے خارجہ کی لندن میں ہونے والی حالیہ ملاقات کو ’’مثبت اور تعمیری‘‘قرار دیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ صومالیہ کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر ہونے والی بات چیت میں پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور اُن کی امریکی ہم منصب ہلری کلنٹن نے باہمی دلچسپی کے تمام اُمور پر تبادلہ خیال کیا۔
مگر اُنھوں نے واضح کیا کہ پاک امریکہ تعلقات میں حقیقی پیش رفت دوطرفہ روابط کا پارلیمانی جائزہ مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔
’’ہمیں اُمید ہے کہ پارلیمان (تعلقات کے) رہنما اُصولوں کی جلد منظوری دے دے گی، اور اس عمل میں کسی صورت بھی مارچ کے وسط سے زائد تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔‘‘
عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، جن کو ’’شفاف‘‘ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اعلیٰ امریکی عہدے داروں کے دورہِ پاکستان کی کوششوں کی اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ تاحال اس بارے میں کسی بھی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے، لیکن پاکستان چاہے گا کہ پارلیمانی عمل مکمل ہونے کے بعد یہ تمام دورے کیے جائیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی کانگریس میں بلوچستان سے متعلق قرار داد متعارف کرائے جانے کے موضوع پر حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس کو چند شخصیات کی جانب سے ’’خودپسندی اور عدم واقفیت‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا اقدام سمجھتا ہے۔
’’پاکستان نے اپنا موقف بالکل واضح کر دیا ہے کہ ہم اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ امریکی قانون سازوں کے وفد نے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی سے ایک روز قبل اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ قرار داد کانگریس کی خواہشات کی نمائندگی نہیں کرتی ہے۔
’’ہمیں یقین ہے کہ چند شخصیات کی طرف سے بغیر سوچے سمجھے کیا گیا یہ اقدام پذیرائی حاصل نہیں کر سکے گا اور قائمہ کمیٹی کی سطح پر ہی ختم ہو جائے گا۔‘‘
عبدالباسط نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بیرونی قوتیں بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
’’حکومت (پاکستان) مسائل سے آگاہ ہے … ہمیں یقین ہے کہ ہم ان تمام مسائل کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کر لیں گے۔‘‘
پاکستان کے اس سب سے بڑے لیکن پسماندہ ترین صوبے میں طویل عرصے سے پرتشدد واقعات کی لہر جاری ہے جس میں حالیہ مہینوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
جہاں ایک طرف کالعدم بلوچ عسکری تنظیموں کی سکیورٹی فورسز اور دیگر اہداف پر مہلک حملوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں قوم پرست جماعتوں اور قائدین کی طرف سے فوج کے خفیہ اداروں پر صوبے میں ماورائے عدالت قتل اور کارکنوں کو غیر قانونی تحویل میں رکھنے کے الزامات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
وفاقی حکومت نے بلوچستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔