رسائی کے لنکس

’ ارتان کی دہشت گردی کو پاکستان میں قیام سے جوڑنا درست نہیں‘


رکن قومی اسمبلی رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان خدانخواستہ کوئی دہشت گردی کا اڈہ تو نہیں کہ یہاں کوئی آئے اور (شدت پسندی جانب) مائل ہو جائے گا۔

امریکہ کی ریاست اوہائیو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں رواں ہفتے ایک صومالی پناہ گزین عبدالرزاق علی ارتان نے تعلیمی ادارے میں پیدل چلنے والوں کے لیے مختص راستے پر گاڑی چڑھانے کے بعد چاقو سے وار کر کے 11 افراد کو زخمی کر دیا تھا۔

پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا تھا اور بعد ازاں حکام کی طرف سے بتایا گیا کہ حملہ آور صومالی نژاد تھا جو کہ 2014 میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ منتقل ہوا۔

اب امریکہ کے ایک موقر انگریزی روزنامے ’دی نیویارک ٹائمز‘ کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ صومالی نوجوان عبدالرزاق امریکہ منتقل ہونے سے قبل لگ بھگ سات سال تک پاکستان میں رہا۔

اخبار کی اس خبر پر پاکستانی حکام کی طرف سے باضابطہ طور پر تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک قانون ساز اور ایک تجزیہ کار نے کہا ہے کہ محض پاکستان میں قیام کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی شخص شدت پسندی کی جانب راغب ہوا ہو۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے رکن رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس معاملے پر حتمی تبصرہ تو صرف اُسی صورت ممکن ہے جب تک حقائق سامنے آئیں کہ وہ صومالی شہری عبدالرزاق پاکستان کیوں آیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور وہ اوہائیو یونیورسٹی میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔

’’پاکستان میں بہت سے لوگ سفر کرتے ہیں اور آنے والے وقتوں میں اس ملک کا سفر کرنے والوں کی تعداد اور بڑھے گی، پاکستان خدانخواستہ کوئی دہشت گردی کا اڈہ تو نہیں کہ یہاں کوئی آئے اور (شدت پسندی جانب) مائل ہو جائے گا، پاکستان میں تو دہشت گردی کے خلاف ایسی جنگ لڑی جا رہی ہے جو دنیا میں کہیں نہیں لڑی جا رہی ہے۔‘‘

تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ اس بارے میں یہ تحقیق ضروری ہے کہ صومالی شہری نے پاکستان میں قیام کیوں کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ جو پاکستان میں رہتا ہے، اُس کا تعلق دہشت گردی سے ہوتا ہے۔

’’صومالیہ میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کے رجحانات بہت ہیں اور وہاں الشباب (دہشت گردی تنظیم سرگرم ہے) ۔۔۔ اس لیے پاکستان کا نام لگانے سے قبل اس بارے میں پوری تحقیق کی ضرورت ہے۔‘‘

دریں اثنا شدت پسند تنظیم ’داعش‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ میں اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں چاقو سے وار کر کے 11 افراد کو زخمی کرنے والا اس کا ’’فوجی‘‘ تھا۔

اس سے قبل بھی دیگر حملوں کے بعد داعش کی طرف سے اس طرح کے مبہم الفاظ استعمال کیے جاتے رہے۔ امریکی حکام کی طرف سے اس دعوے کے بارے میں فوری طور پر تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

’داعش‘ عموماً یورپ میں دہشت گرد حملوں کے بعد اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں معذور افراد کی بحالی کے ایک مرکز پر فائرنگ کے بعد پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والی شہری تاشفین ملک اور اُن شوہر رضوان فاروق کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔

XS
SM
MD
LG