پاکستانی حکام نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اسلام آباد میں تعینات امریکی سی آئی اے کے سربراہ کا نام افشا کرنے میں جاسوسی کے اُس کے ادارے، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، کا ہاتھ ہے۔
ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر آئی ایس آئی کے عہدے داروں نے یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ اس طرح کی ’قیاس آرائی پر مبنی بے بنیاد الزام تراشی ‘سے امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
امریکی ادارے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی نے اسلام آباد میں اپنے سربراہ جونتھن بینکس کو اُن کی زندگی کو درپیش ممکنہ خطرات کے پیش نظر فوری طور پر جمعرات کوواپس بلا لیا تھا۔
اُن کی شناخت رواں ہفتے پاکستان کی ایک عدالت میں دائر درخواست میں کی گئی تھی جواُن افرادکی جانب سے دائر کی گئی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے عزیز و اقارب قبائلی علاقوں میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اس مقدمے کے دائر ہونے سے ایک ماہ قبل امریکہ کے شہر نیو یارک میں ایک مقدمہ درج کرایا گیا تھا جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ اور بھارت کے شہر ممبئی میں 2008ء میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے درمیان مبینہ تعلق کی نشان دہی کی گئی تھی۔
آئی ایس آئی کے عہدیداروں نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں اس حوالے سے چھپنے والے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بظاہر اس کامقصد سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان اختلاف پید ا کرنا ہے۔
اُن کے بقول ” دونوں اداروں کے درمیان شاندار تعاون جاری ہے۔ سی آئی اے کے افسران کے ساتھ باقاعدگی سے ہونے والے رابطوں میں ان کی طرف سے کسی بھی مرحلے پر ہمارے خلوص اور ساکھ کے بارے میں کسی شک وشبے کا اظہار نہیں کیا گیا۔“
پاکستانی آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسران نے امکان ظاہر کیا ہے کہ سی آئی اے کے اپنے نمائندوں کا رویہ بھی پاکستان میں اُن کے سربراہ کا نام افشا کرنے کا ذمہ دار ہو سکتا ہے کیونکہ وہ باقاعدگی سے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقاتیں اور کھانوں کی دعوتوں میں شرکت کرتے ہیں۔
پاکستان میں جاری ڈرون حملوں پر امریکی حکام تبصرہ نہیں کرتے تاہم وہ بغیر پائلٹ کے ان جہازوں سے داغے جانے والے میزائلوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر ہتھیار قرار دیتے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ڈرون کی تعیناتی اور ان کارروائیوں کی نگرانی امریکی سی آئی اے کرتی ہے۔