رسائی کے لنکس

سیلاب زدہ زرعی شعبے کی بہتری کے لیے امریکی معاونت


سیلاب زدہ زرعی شعبے کی بہتری کے لیے امریکی معاونت
سیلاب زدہ زرعی شعبے کی بہتری کے لیے امریکی معاونت

پاکستان میں جولائی میں ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب سے زراعت کے شعبے کوبھی وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا ہے اور سرکاری اندازوں کے مطابق 23 لاکھ ہیکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے غذائی قلت جیسے سنگین مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے اس لیے اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا انحصار بھی اسی شعبے کی جلد از جلد بحالی پر ہے۔

امریکی ادارہ برائے زرعی ترقی یعنی یوایس ڈی اے کی مالی اعانت سے 2002 میں پاکستان کے لیے ایک مستقل فنڈ قائم کر کے نیچرل سائنسز لنکجز پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا جس کا مقصد تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پاکستان میں زرعی شعبے کو ترقی دینا ، غذائی تحفظ کو یقینی بنانا اور کاشت کاروں کو ان کی فصل کا بہتر سے بہتر منافع دلوانا ہے۔

اس پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے سائنسدانوں کی باہمی مشاورت اور تجزیے سے نہ صرف زراعت بلکہ مویشیوں کی ترقی کے لیے 23 منصوبے جاری ہیں اور بدھ کے روزاسلام آباد میں دو نئے منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کے زرعی اتاشی رے سینٹیلا نے کہا کہ عالمی اقتصادی مسابقت کے موجودہ دور میں پاکستان کو اپنی جگہ بنانے کے لیے پائیدار زرعی پیداوار کا ایک موثر نظام قائم کرنا ہوگا اور یہ جدید سائنسی ٹیکنالوجی اپنا کر ہی ممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں زرعی شعبے سے وابستہ افراد کی استعطاعت بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ ملک اپنی ترقی کے لیے اپنے ہی قدرتی وسائل پر انحصار بڑھا سکے۔

منصوبے کے تحت پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کو مختلف جامعات اور تحقیقی اداروں سے زراعت اور اس سے جڑے دوسرے شبعوں کی طرف سے منصوبے تجویز کیے جاتے ہیں جن کے تجزیہ کے بعد یو ایس ڈی اے مالی اعانت فراہم کرتا ہے۔

ادارے کے سربراہ منظور سومرو نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کے بدھ کو پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو اسٹرٹیجک مزاکرات کا دور ہو رہا کے اس میں زراعت کے شعبے میں دو طرفہ تعاون بڑھانے کو خصوصی اہمیت حاصل ہو گی اورتوقع ہے کہ اس حوالے سےان منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے گی جن پر پہلے سے اتفاق ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایف سیلاب زدہ علاقوں اور افراد کی بحالی کے کام میں متحرک ہے اور اس سلسلے میں امریکہ کے ساتھ جاری پروگرام بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ان افراد کو فائدہ پہنچاتا ہے جو اس قدرتی آفت میں اپنی فصلوں اور مال مویشیوں سے محروم ہو گئے ہیں۔

پروفیسر امیر محمد ممتاز زرعی ماہر اور پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے سابق سربراہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے سیلاب کی تباہی سے نمٹنے اور آئندہ اقتصادی ترقی کے لیے واحد راستہ زرعت ہے ’’لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جائے ، صرف پیداوار بڑھانے کو ہی ہدف نہ بنایا جائے بلکہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ موسمی تبدیلیوں کے تناظر میں کس موسم میں کس زمین پر کس فصل کی کاشت ہونی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی میں زراعت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی ملکی پیداوار میں بنیادی زراعت کا حصّہ اگرچہ 20 سے 21 فیصد ہے لیکن اگر ٹیکسٹائل اور دیگر کئی شبعوں سے جڑی تجارت کو شامل کیا جائے تو اس کا تناسب 70 سے 75 فیصد بنتا ہے۔

XS
SM
MD
LG