رسائی کے لنکس

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مصالحت کے لیے مذاکرات جاری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں اور جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کے ایک جرگے اور دیگر مصالحت کاروں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور ٹی ٹی پی کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد افغانستان سے حال ہی میں واپس آنے والے محسود قبائل کے جرگے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے رہنما بظاہر مصالحت اور امن کے لیے تیار ہیں۔


محسود قبائل کے جرگے کے ترجمان شیر پاؤ محسود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے میں کہا ہے کہ اب جرگہ ممبران ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کا موقف حکومتی عہدیداروں کے سامنے رکھیں گے۔

کالعدم تنظیم اور حکومت کے درمیان مصالحت کے لیے کوششیں ایک ایسے وقت ہو رہی ہیں جب ملک بھر میں جاری تشدد اور دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داریاں ایک اور شدت پسند تنظیم داعش قبول کر رہی ہے ۔

ان واقعات میں ایک روز قبل پشاور نواحی علاقے سربند میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو گھات لگا کر قتل کرنے کے علاوہ 4 مارچ کو پشاور کے وسطی علاقے امامیہ جامع مسجد پر ہونے والا ہلاکت خیز خودکش حملہ سر فہرست ہیں۔

ادھر کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو رابطے پر بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کے رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگہ کے علاوہ دیگر مصالحت کاروں کی وساطت سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے ۔

محسود قبائل کے رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگے کی اپیل پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پہلے یکم مئی سے 10 مئی تک حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس میں پھر 11 سے 15 مئی تک توسیع کردی گئی۔ اب کالعدم تنظیم کے ذرائع کے مطابق مصالحت کے لیے بات چیت جاری ہے ۔

تازہ ترین صورتِ حال پر حکومت کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔


محسود قبائل جرگہ کے ترجمان شیرپاؤ محسود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بقول طالبان کے زیادہ تر مطالبات کا تعلق ٹی ٹی پی کے قیدیوں کی رہائی اور مقدمات واپس لینے سے ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت پہلے ہی متعدد طالبان قیدیوں کو رہا کرچکی ہے۔

بالواسطہ مذاکرات کا پس منظر

سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مصالحت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پچھلے سال ستمبر میں حقانی نیٹ ورک کے وساطت سے شروع ہوا تھا جس کے نتیجے میں نومبر میں طالبان نے ایک مہینے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا تاہم دسمبر 2021 کے اوائل میں طالبان نے جنگ بندی کا فیصلہ منسوخ کرکے پر تشدد عسکری کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ۔ جس کے بعد دسمبر2021 سے اپریل 2022 تک کے عرصے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ملک بھر میں پچھلے چند مہینوں کے دوران بالخصوص دسمبر 2021 اور اپریل 2022 کے درمیان دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے، مگر اس دوران کئی ایک واقعات کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم داعش بھی قبول کرتی رہی ہے ۔

ایک اعلی پولیس عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داعش سے تعلق رکھنے والے جنگجو اب ملک بھر میں بالخصوص خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں سرگرم ہو چکے ہیں۔ یہ جنگجو شام اور عراق سے پاکستان آ رہے ہیں۔

سیاسی امور کے تجزیہ کار شکیل وحید اللہ خان کا کہنا ہے کہ داعش اب نہ صرف افغانستان میں سرگرم ہے بلکہ وہ افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقو ں میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہی ہے۔

پاکستان کی سول سوسائٹی کی بعض تنظیمیں اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتیں بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مصالحت کی مخالفت کر رہی ہیں۔ شکیل وحید اللہ خان کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ سب کچھ آئین اور قوانین کے دائرہ کار کے اندر رہ کر کیا جائے۔ بصورت دیگر ایسا اقدام پچھلی دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کی وارداتوں کو جائز قرار دینے کے مترادف ہو گا۔


سکھ برادری کے دو افراد کی آخری رسومات

ایک روز قبل پشاور کے نواحی علاقے سربند میں نامعلوم عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے سکھ برادری کے دو افراد کی آخری رسومات دریائے سندھ کے کنارے اٹک ضلع میں قائم شمشان گھاٹ میں اتوار کی رات ادا کر دی گئیں ۔

آخری رسومات سے قبل سکھ برادری کے سینکڑوں افراد نے دونوں افراد کی لاشیں پشاور کے ہشت نگری کے علاقے میں جی ٹی روڈ پر رکھ کر سڑک کو کئی گھنٹوں تک ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا تھا۔ تاہم پشاور کے اعلیٰ سول اور پولیس عہدیداروں کی یقین دہانی پر مظاہرین نے احتجاجی دھرنا ختم کرکے لاشیں آخری رسومات کے لیے اٹک روانہ کردیں ۔

پشاور پولیس کے سربراہ محمد اعجاز خان نے بھی محلہ جوگیواڑہ جا کر سکھ برادری کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی ہے دوسری جانب پشاور پولیس نے دونوں افراد کے قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرکے مزید تفتیش شروع کردی ہے۔

مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور عہدیدار وں نے سکھ برادری کے خلاف جاری تشدد کے واقعات کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ سکھ برادری کی ایک تنظیم کے سربراہ رادیش سنگھ ٹونی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب تک سکھ برادری کے 24 افراد کو پشاور اور نواحی علاقوں میں گھات لگا کر قتل کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG