پاکستان کی وفاقی حکومت نے ایک موقر امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی طرف سے ایک پاکستانی کمپنی کے دنیا بھر میں جعلی تعلیمی اسناد کے کاروبار میں ملوث ہونے کی خبر سے متعلق تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
منگل کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ نے ’’ایگزیکٹ‘ نامی کمپنی کے دفاتر پر چھاپے کے دوران مختلف کمپیوٹرز اور ریکارڈ قبضے میں لینے کے علاوہ چند کارکنوں کو پوچھ گچھ کے لیے تحویل میں بھی لیا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے خبر دی تھی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک پاکستانی کمپنی "ایگزیکٹ" مبینہ طور پر صرف کاغذوں پر قائم یونیورسٹیوں سے جعلی اسناد فراہم کر کے صارفین سے لاکھوں ڈالر کما چکی ہے۔
اس خبر کے منظرعام پر آتے ہی پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی کیونکہ یہ کمپنی پاکستان میں ایک بہت بڑا میڈیا نیٹ ورک "بول" بھی شروع کرنے جا رہی ہے۔
منگل کو وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ’ایف آئی اے‘ کو اس سارے معاملے کی تحقیق کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
سرکاری بیان کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ نیویارک ٹائمز کی خبر میں کتنی صداقت ہے اور کیا مذکورہ کمپنی ایسے کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہے جس سے دنیا میں ملک کی نیک نامی پر حرف آسکتا ہو۔
ایگزیکٹ کمپنی کی طرف سے اس خبر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ مقامی حریف میڈیا گروپ نے نیویارک ٹائمز کے ساتھ مل کر اس کی کاروباری ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ معاملہ منگل کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں زیر بحث آیا جہاں اس خبر کی تحقیقات کے لیے اسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے سپرد کر دیا گیا۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے کیونکہ خبر میں ایک پاکستانی کمپنی پر جعلی ڈگریاں جاری کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
حکمران مسلم لیگ (ن( کے سینیٹر عبدالقیوم نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس خبر کو ایک سنجیدہ معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کی شفاف تحقیقات پر زور دیا۔
"اگر یہ ملوث پائے جاتے ہیں تو یہ پاکستان کے دوست نہیں پاکستان کے دشمن ہیں۔۔۔حکومت پاکستان اس بارے میں بڑا وضح موقف رکھتی ہے۔ جعلی ڈگری یا کوئی بھی ایسا دھندا جو قوانین کے منافی ہو اور ملک کے وقار کو داؤ پر لگاتا ہو اس کو کبھی بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس معاملے کی تحقیقات ہونا باقی ہیں اس لیے فی الوقت کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا۔