پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان روس میں رواں ہفتے افغانستان سے متعلق کانفرنس میں شرکت کرے گا۔
اس بات کی تصدیق پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کی۔
ماسکو میں جمعے کو ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی شرکت سے متعلق سوال کے جواب میں، ترجمان نے کہا کہ پاکستان یہ سجھتا ہے کہ افغان تنازع کا حل صرف بات چیت ہی سے ممکن ہے؛ اور، ان کے بقول، ’’پاکستان اس حوالے سے ہونے والی ہر کوشش کی حمایت کرتا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک ایڈیشنل سیکرٹری کی قیادت میں پاکستانی وفد ماسکو کانفرنس میں شرکت کرے گا۔
محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان کئی بار اس بات کا اعادہ کر چکا ہے کہ افغان مسئلے کا حل سیاسی مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ اور، بقول ان کے، ’’پاکستان اس حوالے سے ہونے والے ہر طرح کے مذاکراتی عمل میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے، چاہیے یہ جہاں کہیں بھی ہوں‘‘۔
تاہم، جب دفتر خارجہ کے ترجمان سے یہ پوچھا گیا آیا ماسکو مذاکرات افغان امن و مصالحت کی کوششوں میں کس طرح معاون ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان خلوص نیت سے ان مذاکرات میں حصے لے گا اور اس عمل میں کس طرح معاون ہو سکتا ہے۔ یہ وقت ہی بتا سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے افغان امن و مصالحت میں کیا پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘‘
روس کی میزبانی میں جمعے کو ماسکو میں ہونے والے افغان امن مذاکرات میں بھارت، ایران، پاکستان، چین اور امریکہ کے علاوہ افغان طالبان اور کئی دیگر ملکوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ تاہم، افغان حکومت نے ان میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ افغان امن اعلیٰ کونسل کا ایک وفد اس کانفرنس میں شرکت کرے گا۔
بھارت سے روس میں افغانستان پر کانفرنس میں شرکت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بھارت کی وزارت خارجہ امور نے کہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ رشین فیڈریشن افغانستان پر 9 نومبر کو ایک کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں امن اور مفاہمت کی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے جس سے ملک میں اتحاد قائم ہو اور وہاں امن، استحکام اور خوشحالی آئے۔ بھارت کی مسلسل یہ پالیسی رہی ہے کہ اس طرح کی کوششیں افغان قیادت میں ہوں اور ان پر افغانستان کا کنڑول ہو اور وہ افغان حکومت کی شراکت سے ہوں۔
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ میں ہماری شرکت غیرسرکاری سطح پر ہو گی۔
پاکستان کی طرف سے حال میں رہا کیے جانے والے افغان کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کی رہائی سے متعلق پوچھےگئے سوال کے جواب میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ملا برادار کی رہائی امریکہ کی درخواست پر عمل میں آئی، جس کا مقصد افغان امن تنازع کے سیاسی حل کی مشترکہ کوششیں آگے بڑھانا ہے۔
ترجمان کے مطابق، ’’ان کی رہائی کا فیصلہ امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کے خطے کے دورے اور ان کی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے بعد عمل میں آیا۔ افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے، ملا برادار کو رہا کیا گیا۔‘‘
انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کو تیز کرنے میں اپنا کردار کرتا رہے گا۔
یاد رہے کہ افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی، زلمے خلیل زاد نے گزشتہ ماہ افغانستان، پاکستان، قطر اور سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد پاکستان نے افغان طالبان کے شریک بانی اور افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف جنگ کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا تھا۔