رسائی کے لنکس

این جی اوز کے اندراج و نگرانی کا آن لائن نظام وضع کیا جا رہا ہے: پاکستان


وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار

بعض اراکین پارلیمان کا ماننا ہے کہ اگر بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو ملک کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں کام کرنے سے روکا جائے گا تو وہ اپنے وسائل شہری علاقوں میں منتقل کر دیں گی

پاکستان کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی نگرانی کا باقاعدہ نظام متعارف کروانے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے۔

اُنھوں نے یہ بات جمعرات کو ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس کے دوران کہی۔

حکومت کی جانب سے کچھ غیر ملکی ’این جی اوز‘ کو صرف شہری علاقوں میں کام کی اجازت دیے جانے پر، رواں ہفتے کچھ اراکین سینیٹ کی طرف سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ اقدام چھوٹے صوبوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔

حالیہ ہفتوں میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے بعض حصوں کو حساس قرار دے کر وہاں غیر ملکی تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ تاہم سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ حکومت چھوٹے صوبوں کو ترقی دینے کی ذمہ داری لے یا ان میں عالمی تنظمیوں کو کام کرنے کی اجازت دے۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے بعض اراکین سینیٹ کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ’این جی اوز‘ کو ملک بھر میں کام کرنے سے روکنا چاہیئے لیکن اُن کے بقول جو بین الاقوامی تنظیمیں پاکستانی قوانین میں رہتے ہوئے کام کر رہی ہیں اُنھیں بلاتفریق ملک بھر میں سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیئے۔

بعض اراکین پارلیمان کا ماننا ہے کہ اگر بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو ملک کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں کام کرنے سے روکا جائے گا تو وہ اپنے وسائل شہری علاقوں میں منتقل کر دیں گی جس سے چھوٹے صوبوں میں رہنے والے متاثر ہوں گے۔

تاہم حکومت کا موقف رہا ہے کہ کسی علاقائی تفریق کی بجائے سلامتی کی خدشات کی بنا پر بعض علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں کو کام سے روکا جاتا ہے۔

وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے سینیٹ میں حکومتی کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سالہا سال سے ایسی بین الاقوامی این جی اوز کام کرتی رہی ہیں جنہوں نے رجسٹریشن کے لیے درخواست نہیں دی اور درجنوں کے حساب سے دفاتر کھول رکھے تھے۔ ان کے بقول وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہیں، مگر سابقہ حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

’’کیا ہماری حکومت نے یہ غلط کیا کہ پہلی دفعہ کہا ہے کہ جو این جی اوز بغیر رجسٹریشن کے کام کر رہے ہیں وہ اپنے آپ کو رجسٹر کرائیں۔‘‘

تاہم وزیرِ داخلہ نے واضح کیا کہ یہ اقدام کچھ مخصوص ’این جی اوز‘ کی وجہ سے کیے جارہے ہیں اور بیشتر غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیمیں ملک کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

اس سے قبل اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ حکومت ’این جی اوز‘ کے اندراج اور نگرانی کے لیے ایک آن لائن نظام وضع کر رہی ہے، جو انتہائی شفاف اور قابل رسائی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو اس پر خدشات نہیں ہونے چاہیئیں۔

پاکستان میں آنے والی غیر ملکی امداد کا ایک بڑا حصہ این جی اوز کے ذریعے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ بھی پاکستان میں عالمی اور مقامی ’این جی اوز‘ کے ساتھ مل کر بے گھر ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کے علاوہ بہت سے دوسرے ترقیاتی پروگرام چلا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG